کالم

صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس

نومبر 6, 2017 4 min

صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس

Reading Time: 4 minutes

شاہد خاقان عباسی سے میری ذاتی قربت کبھی نہیں رہی۔ ایک رپورٹر کی حیثیت میں لیکن حکومت اور اپوزیشن میں نمایاں افراد پر نگاہ رکھنا میری پیشہ وارانہ مجبوری رہی ہے۔ اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی کے بارے میں جو بھی سنا اچھا ہی سنا۔ ان کی شہرت اپنی ذات میں گم ایک ایسے شخص کی رہی ہے جسے سرکاری عہدوں کی خاص پرواہ نہیں ۔ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے بارے میں بدعنوانی سے جڑی کہانیاں اسلام آباد کے غیبت فروش افراد سے کم از کم میں نے نہیں سنیں۔ بہت عرصے سے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر انہیں قطر سے LNGکی ترسیل کے حوالے سے بنائے ایک سکینڈل سے وابستہ کر رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد جب وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو موصوف نے ان کے خلاف بھی ”ٹھوس ثبوتوں“ سمیت سپریم کورٹ میں 62/63 والی رٹ دائر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ”ثبوت“ حاصل کرنے کے لئے نواز شریف کو نااہل کروانے کے یہ دعوے دار چند ہفتے قبل ہانگ کانگ میں خواتین کے لئے میک اپ کی اشیاءکے حوالے سے معروف ہوئے ایک سٹور میں اپنے مبینہ "Source”سے خریداری کے بہانے ”اہم دستاویزات“ بھی حاصل کرتے پائے گئے تھے۔ وطن لوٹنے کے بعد انہوں نے ایک بھاری بھر کم اور مجلد دستاویزات کو ہوا میں لہراتے ہوئے ”ایک ذرا صبر….“ والا دعویٰ بھی کیا تھا۔ رٹ مگر ابھی تک دائر نہیں ہوئی ہے۔
میری اطلاع کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے امریکہ کی دو بہترین اور مشہور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ شعبہ ان کا مگر سول انجینئرنگ بتایا گیا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ وہ عمرانیات اور سیاسیات کے علوم میں بھی Academicحوالوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی اس دلچسپی کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف ان دنوں لندن میں جاری ایک سیمینار میں ان کی موجودگی سے ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس سیمینار کا اہتمام لندن کے مشہورِ زمانہ سکول آف اکنامکس نے کیا تھا۔ وہاں سے "Triple P”والی ڈگر ی لی جاتی ہے۔ ایک P سے فلاسفی، دوسری P سے سیاسیات اور تیسری P سے جانے کیا۔ تین P والی مگر ایک ڈگری ہوتی ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم کے بعد حاصل کی جائے تو پڑھے لکھے لوگ بہت مرعوب ہوتے ہیں۔ نوکری آسانی سے مل جاتی ہے۔”تین پی“ کے حوالے سے مشہور تعلیمی اداروں میں ہوئے ایک سیمینار میں پاکستانی وزیراعظم کی شرکت جو علمی اعتبار سے انجینئرنگ کا طالب علم رہا ہے، عمومی حالات میں ایک خوش گوار خبر ہونا چاہیے تھی۔ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات میں لیکن مجھ ایسے خبطی اور وسوسوں کے مارے شخص کو شاہد خاقان عباسی کی وہاں موجودگی ”کھیرپکاﺅتے کھیر کھاﺅ“ جیسی ”آنیاں جانیاں“ لگی۔
شاہد خاقان عباسی کی بے نیازی نے بلکہ حیران بہت کیا۔ الیکشن کمیشن واضح الفاظ میں متنبہ کرچکا ہے کہ اگر ہماری پارلیمان نے یکسو ہوکر آئینی ترمیم کے ذریعے حال ہی میں مکمل ہوئی مردم شماری کی روشنی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا کوئی فارمولہ نومبر 2017کی دس تاریخ تک طے نہ کیا تو اگست 2018 میں وقتِ مقررہ پرعام نتخابات کا انعقاد ناممکن ہوجائے گا۔ہمارے سیاست دان،خواہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں ،تواتر کے ساتھ وقتِ مقررہ پر انتخاب کے حامی ہونے کے دعوے کر رہے ہیں۔ عمران خان صاحب تو قبل از وقت انتخاب کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ مقصد ان تیاریوں کا خلقِ خدا تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت کا قیام کسی صورت قابل قبول نہیں۔یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر 10نومبر تک پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے نئی مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابات کو وقتِ مقررہ یا اس سے قبل منعقد کروانے کے آئینی راستے فراہم نہ کئے تو یہ انتخابات کیسے ہوں گے۔ ان انتخابات کے لئے قومی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا فیصلہ کون کرے گا۔ نئی حلقہ بندیاں کیسے ہوں گی؟۔شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے لئے اپنے تئیں مطلوبہ آئینی ترامیم کروانا ممکن ہی نہیں۔ سینیٹ میں اسے سادہ اکثریت بھی میسر نہیں۔ قومی اسمبلی میں اسے اکثریت کی حمایت حاصل ہے مگر اس حمایت کے باوجود وہ اس ایوان کے عام اجلاسوں کے لئے بھی کورم کے لئے ضروری قرار دئیے اراکین کی موجودگی برقرار رکھنے میں مسلسل ناکام نظر آرہی ہے۔قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے ممکنہ آئینی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی پیش بندی کے لئے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں سے روابط استوار کئے تھے۔ بالآخر خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتوں اور اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی جس میں تحریک انصاف سمیت ہر جماعت مطلوبہ ا ٓئینی ترمیم کو ہنگامی طورپر منظور کرنے پر آمادہ نظر آئی۔نظر بظاہر ایک طویل مشاورت کے بعد تیار ہوئی آئینی ترامیم مگر جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے جو امریکہ میں دورانِ تعلیم وزیر اعظم کے ساتھ ہاسٹل کے ایک کمرے میں رہائش پذیر بھی رہے ہیں، اعتراضات اٹھا دئیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نئی مردم شماری کے بعد CCIکونسل آف کامن انٹرسٹس کے ذریعے صوبوں کی رائے سے قومی اسمبلی کے مجموعی اراکین کی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ نوید قمر نے CCI والا سوال ان اجلاسوں میں کیوں نہیں اٹھایا جہاں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے باہم مل کر آئندہ انتخابات کو بروقت یا وقتِ مقررہ سے پہلے کسی آئینی قضیے کے تدارک کے لئے ترامیم متعارف کروانے پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح طورپر دی گئی Deadlineکو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے دلِ خوش فہم کو یقین تھا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان دنوں ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین پارلیمان سے روابط استوار کرتے ہوئے انہیں 10نومبر تک آئینی ترامیم کی منظوری پر آمادہ کر رہے ہوں گے۔ وہ مگر ایک سیمینار میں شرکت کے لئے لندن روانہ ہوگئے اور وہاں موجود افراد کو یہ سمجھاتے رہے کہ آئینِ پاکستان میں ٹیکنوکریٹس حکومت کا کوئی تصور ہی نہیں۔ان کا فرمانا بالکل بجا۔ الیکشن کمیشن کی دی گئی ڈیڈ لائن سے پہلے مگر نئی مردم شماری کی روشنی میں موجودہ پارلیمان نے اس کے ذمے آئے فرض کو نبھانے میں ناکامی دکھائی تو ”غیر منتخب ادارے“ ہی خلا کو پُر کریں گے اور انہیں یہ کردار ادا کرنے کا اخلاقی جواز بھی ہر صورت حاصل ہوگا۔ اس صورت میں بینڈ باجے کے ساتھ ٹیکنوکریٹس والی بارات آئے گی اور عدلیہ کوبھی وہ کردار ادا کرنا پڑے گا جو سچ مچ کے جمہوری ممالک میں صرف قانون سازوں کی ذمہ داری ہوا کرتا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے