کالم

سیاسی دھوبی گھاٹ

نومبر 11, 2017 5 min

سیاسی دھوبی گھاٹ

Reading Time: 5 minutes

8 نومبر کی شام سے 9 نومبر کی رات کے مابین کراچی کی سیاست کے وہ چوبیس گھنٹے واقع ہیں جن میں پولیٹیکل انجینئرنگ کے دم پر قومی سیاست کا اٹھواں عجوبہ تیار کرنے کی کوشش ہوئی۔ انجام وہی نکلا جو کسی بھی غیر فطری حرکت کا ہو سکتا ہے۔ خود اعتمادی اور جلد بازی کی انتہاء دیکھئے کہ ایک طرف پاک سر زمین پارٹی کا کیمپ تھا جو مکمل پر سکون تھا اور دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کا کیمپ تھا جہاں اضطراب ہی نہیں ہلچل بھی نظر آ رہی تھی اور اس کے باوجود پولیٹیکل انجینئرز نے پریس کانفرنس طے کررکھی تھی۔ پاک سرزمین پارٹی کو کراچی کی سیاست میں ایک کٹھ پتلی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین سے بغاوت کرنے والی ایسی جماعت کی حیثیت سے دیکھا جا تا ہے جو اپنی خود مختاری کو بچائے رکھنے کی جد و جہد کر رہی ہے۔ اس جماعت پر دباؤ ہے کہ یہ اپنی جدا گانہ حیثیت ختم کرکے مصطفے کمال کے دھوبی گھاٹ کا حصہ بن جائے ورنہ جو مہاجر اس دھوبی گھاٹ میں نہ گیا اسے ’’پاک و صاف‘‘ کا ٹیگ نہیں ملے گا۔ ان دونوں جماعتوں کے جوہری فرق کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد سمجھ لی جائے۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم بنیادی طور پر ایک فاشسٹ جماعت تھی۔ اس میں ایک تو تنظیم کا اصل ڈھانچہ تھا جو سیکٹرز اور یونٹس پر مشتمل تھا۔ اس ڈھانچے میں جو جتنا بڑا غنڈہ تھا وہ اتنی ہی اہم پوزیشن پر بیٹھا تھا۔ یونٹ میں چھوٹے غنڈے ہوتے جو ترقی کے مدارج طے کرکے سیکٹر تک پہنچتے اور سیکٹر میں سب سے بڑا غنڈہ سیکٹر انچارج ہوتا۔ ایم کیو ایم کی طاقت اس کے سیکٹر انچارج تھے۔ کراچی شہر کی ٹارگٹ کلنگ، سٹریٹ کرائم، شہر کو بند کرنا، بھتے وصول کرنا، قربانی کی کھالیں چھیننا سیکٹرز کی ہی ذمہ داری تھی۔ سیکٹرز کو نائین زیرو سے انیس قائم خانی کنٹرول کیا کرتے تھے۔ دوسرا ایم کیو ایم کا وہ حصہ تھا جو اس کے ان چہروں پر مشتمل تھا جنہیں الطاف حسین قومی سیاست کے منظرنامے پر پیش کیا کرتے تھے۔ یہ چہرے مجموعی طور پر ایم کیو ایم کا چہرہ تھے، ملک کے طول و عرض میں لوگ ایم کیو ایم کو انہی چہروں کے حوالے سے جانتے تھے۔ ان میں رابطہ کمیٹی کے ارکان، پارلیمنٹیرین اور وزراء شامل تھے۔ دنیا کے لئے یہ ایم کیو ایم کی ’’ذیلی قیادت‘‘ تھی۔ یہ مجموعی طور پر نیٹ اینڈ کلین لوگ تھے لیکن بہت محدود تعداد میں ان میں بھی جرائم پیشہ لوگ شامل تھے۔ چونکہ ملک بھر میں الطاف حسین کے علاوہ انہی کو ایم کیو ایم کی قیادت سمجھا جاتا تھا سو الطاف حسین کا متبادل بھی انہی میں تلاش کیا جاتا کہ متبادل قیادت بہر حال ذیلی قیادت سے ہی ابھرتی ہے۔ متبادل کے اسی خطرے کے پیش نظر الطاف حسین نے ان کی تنظیمی حیثیت محض کٹھ پتلیوں کی بنا رکھی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الطاف حسین آئے روز انہیں اکھاڑ پچھاڑ کے عمل سے گزارا کرتے تھے۔ بظاہر ٹی وی چینلز پر وفاقی وزیر اور ڈپٹی کنوینیر نظر آنے والے یہ چہرے اتنے بے بس تھے کہ سیکٹر انچارج انہیں مرغا بھی بنالیتے اور پیٹ بھی ڈالتے اور الطاف حسین جب بھی توڑتے رابطہ کمیٹی کو ہی توڑتے، سیکٹرز اور یونٹس کو وہ بالکل نہ چھیڑتے جو ان کی اصل تنظیمی طاقت تھی۔

الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا تیسرا حصہ وہ قاتل دستے تھے جن میں سے ایک بی ٹیم کہلاتی ہے اور دوسری اے ٹیم۔ بی ٹیم کے اراکین کراچی میں ہی ہوتے اور سیکٹرز کے تحت کام کرتے۔ ان کا بنیادی کام چھوٹے اور میڈیم لیول کی ٹارگٹ کلنگ تھا۔ اے ٹیم سب سے خطرناک تھی جس کے ارکان جنوبی افریقہ اور ملیشیا میں آج بھی موجود ہیں۔ یہ ٹیم براہ راست الطاف حسین کو جوابدہ ہے ۔ الطاف حسین کے علاوہ ان پر کسی کا کنٹرول ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کی ذیلی قیادت اس کے تمام ارکان کو جانتی ہے۔ وہ یہی ٹیم ہے جس کی دہشت کے سبب کوئی الطاف حسین سے بغاوت کی جرات نہیں کرتا تھا۔ 2013ء سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے یونٹس اور سیکٹرز سطح کے غنڈوں کی ایک معقول تعداد ماری جا چکی اور کچھ جیلوں میں جا چکے ۔ جو بچے کھچے ہیں وہ اپنے گرو انیس قائم خانی کی چھتری تلے پاک سر زمین پارٹی میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفے کمال بظاہر اپیل کرتے نظر آتے ہیں کہ جرائم پیشہ کارکنوں کو عام معافی دی جائے ورنہ یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اپیل محض دکھلاوہ ہے ہونا تو بالآخر یہی ہے۔ الطاف حسین کے تنظیمی غنڈوں کے پاک سرزمین پارٹی میں ہونے کا انہیں فائدہ یہ ہے کہ اس وقت کراچی کے ان تمام محلوں میں پاک سرزمین پارٹی کے یونٹ قائم ہو چکے جہاں پہلے یہی غنڈے الطاف حسین کے تنظیمی یونٹ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے برخلاف فاروق ستار کے پاس الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا وہ حصہ ہے جو مشتمل ہی نان کریمنلز پر تھا اور جو ایم کیو ایم کا ظاہری صاف و شفاف چہرہ تھا۔ الطاف حسین کی رابطہ کمیٹی اور پارلیمنٹیرین فاروق ستار کی جیب میں ہیں۔ اس حصے میں جو محدود تعداد جرائم پیشہ عناصر کی ہے ان کی دم پر جوں ہی پاؤں پڑتا ہے وہ دباؤ قبول کر ہی نہیں پاتے اور سیدھا مصطفے کمال کے کیمپ میں چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کے اب ایک دو ہی لوگ ان کے ہاں مزید بچے ہیں۔

پولیٹیکل انجینئرز کی سر توڑ کوشش ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو مصطفے کمال کی غلامی میں دیدیا جائے لیکن ایم کیو ایم پاکستان اس کی مزاحمت کرتی آ رہی ہے۔ 8 نومبر کی رات مصطفے کمال کا کیمپ یکسو تھا جبکہ فاروق ستار کے کیمپ میں سخت قسم کی بے چینی تھی۔ پولیٹیکل انجینئرنگ کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ اتحاد یا انضمام کے لئے پریس کانفرنس کا وقت طے ہوچکا تھا اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو خبر ہی نہ تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ کہنے کو پریس کانفرنس ہو گئی لیکن جو اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہوا وہ پولیٹیکل انجینئرنگ کی بدترین ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ 9 نومبر کی شب فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان ایک نئے جوش و خروش کے ساتھ اپنے پرانے موقف پر متحد ہوگئی ہے۔ اس تنظیم کا خود کو پولیٹیکل انجینئرز کے سپرد کرنے سے انکار ایک خوش آئند امر ہے کیونکہ الطاف حسین فاشسٹ رہنماء کے طور پر پولیٹیکل انجینئرز کی نگرانی میں ہی ابھرا تھا۔ تب بھی اس کے نتائج ملک کے لئے تباہ کن نکلے تھے اور کوئی شک نہیں کہ آئندہ بھی ایسی کوششوں کے وہی نتائج مرتب ہوں گے۔ کراچی کی ان دونوں جماعتوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر ریاست کو جرائم پیشہ عناصر پر ہی فوکس کرنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں میں مداخلت اور انہیں کمزور کرنے کی حکمت عملی ملک کو ہی کمزور کرے گی۔ ہماری قومی تاریخ میں نہ تو پہلے کبھی پولیٹیکل انجینئرنگ کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ اگر چوہدری شجاعت کی ق لیگ اور فیصل صالح حیات کے پیٹریاٹ گروپ کی صورت بننے والے دھوبی گھاٹ کامیاب ثابت نہ ہو سکے تو عمران خان اور مصطفے کمال کے سیاسی دھوبی گھاٹ کیسے کامیاب ثابت ہوں گے ؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے