کالم

قطعاََ بے خبر

نومبر 14, 2017 5 min

قطعاََ بے خبر

Reading Time: 5 minutes

کافی دوستوں نے ای میل وغیرہ کے ذریعے شکوہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں بہت کچھ ہوگیا۔ میں نے اس بابت ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ نیتوں کا حال مجھ گنہگار کی نظر میں صرف ربّ ہی جانتا ہے۔ ہمارے انٹرنیٹ ”مجاہدین“ مگر سب جاننے کے دعوے دار ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نے طنزاََ میری ”مجبوریوں“ کو سمجھنے کا دعویٰ بھی کیا جن کی وجہ سے بقول ان کے میں سعودی عرب کے معاملات کے بارے میں مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہوں۔

خود کو حق گو کی مجسم علامت بنائے پارساﺅں کے لئے بہت عاجزی سے اعتراف کرنا ہے کہ سعودی عرب کے حالیہ واقعات کے بارے میں اختیار کردہ میری خاموشی واقعتا ایک ”مجبوری“ کی وجہ سے ہے۔ یہ ”مجبوری“ مگر کسی مصلحت یا مفاد پر مبنی نہیں ہے۔ بنیادی اور واحد وجہ صرف یہ ہے کہ میں سعودی عرب کے سیاسی حقائق کے بارے میں قطعاََ بے خبر ہوں۔ اس ملک تین بار گیا ہوں۔ سرکاری وفود کے ساتھ۔ اس دوران عمرے بھی ہوئے اور گھر لوٹ آیا۔
عربی زبان مجھے ہرگز نہیں آتی۔ عراق اور لبنان پر مسلط ہوئی جنگوں کو ان ممالک میں کئی ہفتے رہ کر رپورٹ کیا ہے۔ لوگوں سے گفتگو کے لئے وہاں ہمیشہ مترجم کی ضرورت رہی۔ کسی خطے پر جب کوئی آفت نازل ہوجائے تو عالمی اخبارات اور ٹیلی وژن نیٹ ورکس کے لئے کام کرنے والوں کے غول وہاں نازل ہوجاتے ہیں۔ اپنی سہولت کے لئے وہ مقامی صحافیوں کو Fixer کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ Fixers آپ کی اہم لوگوں سے ملاقاتیں طے کرواتے ہیں۔ عام لوگوں سے گفتگو کے لئے ترجمانی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد ہمارے اسلام آباد اور پشاور بھی کئی مہینوں تک عالمی میڈیا کی زد میں رہے۔ ان کے لئے کام کرنے والے میرے کئی عزیز ساتھیوں نے Fixerکا رول ادا کیا اور اچھا سیزن لگایا۔ عموماََ Fixer آپ سے یومیہ کم از کم سوڈالر کا طلب گار ہوتا ہے۔میں جب عراق، لبنان، شام یا اردن جیسے ممالک میں رپورٹنگ کے لئے بھیجا جاتا تھا تو متعلقہ اداروں سے ذاتی اخراجات کے لئے سو ڈالر سے بھی کم رقم یومیہ کی صورت ملتی تھی۔ Fixer کیسے Hire کرتا؟ منہ اٹھا کر لہٰذا خود ہی گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتا۔ پردیسی کی کم مائیگی پر لوگوں کے دلوں میں رحم آ ہی جاتا اور Fixers کی رہنمائی کے بغیر اکثر اوقات میں چند Breaking News جان پایا جو عالمی میڈیا کی نگاہ سے اوجھل تھےں۔ سعودی عرب میں شاید منہ اٹھا کر بازاروں میں گھومتے ہوئے لوگوں سے سیاسی سوالات اٹھانا ممکن ویسے بھی نہیں۔
عربی زبان سے لاعلمی اور سعودی عرب کے ٹھوس حقائق تک براہِ راست رسائی نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے کئی لکھنے والوں نے جنہیں ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد ہوا کرتی ہے، اس ملک کے حالیہ واقعات کے بارے میں تفصیلی مضامین لکھے ہیں۔ میری بدقسمتی کہ ان مضامین میں جو ”چشم کشا“ خیالات بیان ہوئے تھے۔ انہیں میں انٹرنیٹ کی بدولت پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ مزید افسوس اس وجہ سے بھی ہوا کہ سعودی عرب کے حالیہ واقعات کے بارے میں بین الاقوامی جرائد میں چھپے جو مضامین میں نے پہلے سے پڑھ رکھے تھے، ہمارے ”طبع زاد“ لکھنے والوں نے ان کا ترجمہ بھی ڈھنگ سے نہیں کیا تھا۔
کئی بار اس کالم میں شکوہ کیا ہے کہ اُمت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہونے پر نازاں پاکستان میں عالمی سیاست کے ٹھوس حقائق کو جاننے کے لئے تحقیق کا رحجان نہیں ہے۔ اپنی کاہلی کا تقابل پرانے وقتوں کے صحافیوں کی حقائق جاننے کی تڑپ سے کریں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کو خلافتِ عثمانیہ پر ٹوٹے کوہِ غم کا بہت دُکھ تھا۔ ہماری سادہ لوح اکثریت محض سامراجی سازشوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی۔ اس حوالے سے حجاز میں ہوئی اس ”بغاوت“ کا بہت چرچا رہا جس کا ذمہ دار فقط مشہور زمانہ برطانوی جاسوس T.E.Lawrence کو ٹھہرایا گیا تھا۔ آلِ شریف اور آلِ سعود کے مسلک کے بارے میں بھی ہمارے ہاں بہت تشویش رہی ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا اخبار ”زمیندار“ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ علامہ اقبال نے اس اخبار کو قائل کیا کہ وہ عوام میں معتبر گردانے لکھاریوں اور علماءپر مشتمل ایک وفد حجاز بھیجے اور وہاں کے حقائق کو برسر زمین دیکھنے کے بعد غیر جانبدارانہ انداز میں بیان کرے۔ ”زمیندار“ کے پاس ایسا وفد بھیجنے کے وسائل ہرگز موجود نہ تھے۔ اقبال کی کاوشوں سے چند خوشحال مسلمان اس وفد کا خرچہ اٹھانے کو تیار ہوئے۔ کئی سوالات کے جوابات میسر ہو گئے۔
آج کا ہمارا میڈیا مالی اعتبار سے کافی طاقت ور ہے۔ وہ کئی ٹی وی اینکروں کو ماہانہ لاکھوں میں تنخواہ دیتا ہے۔ ان میں سے اکثر مگر راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر سے ون آن ون انٹرویو کر کے Rating کما لیتے ہیں۔ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اسے جاننے کی تڑپ ہمارے سٹار اینکرز اور صحافیوں میں ہرگز موجود نہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلوں نے سعودی عرب کے حالیہ واقعات کو بالکل نظر انداز کیا۔ اخبارات میں مضامین چھپے مگر ان میں سے اکثر نے اپنے تجزیے کے لئے امریکی اور یورپی جرائد میں چھپی معلومات پر انحصار کیا۔ کوئی نئی بات نظر نہیں آئی۔
سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی وجہ سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے عواقب و نتائج فقط اس ملک تک محدود نہیں رہیں گے۔ لاکھوں پاکستانی کئی برسوں سے روزگار کی وجہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ان کے بھیجے زرمبادلہ سے لاکھوں گھر ہی نہیں ہماری ریاست کا گزارہ بھی چلتا ہے۔ ہم ٹھوس اقتصادی وجوہات کی بناءپر وہاں کے حقائق سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اشرافیہ ہماری دنیا بھر کی اشرافیہ کی طرح میرے اور آپ جیسے عامیوں کو حقائق بتانے کو تیار نہیں ہوتی۔ سچ کو لہذا تلاش کرنا ہوتا ہے۔
سچ کی بات چلی ہے تو ”آزاد“ اور ”بے باک“ میڈیا کے دعوے دار ملک پاکستان کے شہریوں کی بے پناہ اکثریت کو علم ہی نہیں کہ سعودی عرب کی قیادت میں بنایا اسلامی ممالک کا ”دہشت گردی کے خلاف اتحاد“ کس طرح تشکیل پایا۔ اس نے اپنے لئے کونسے اہداف چنے ہیں۔ ان اہداف کے حصول کے لئے حکمت عملی کیا اپنائی گئی ہے۔
ہماری ”سب پر بالادست“ ہونے کی دعوے دار پارلیمان میں وزراءنے کئی بار وعدہ کیا کہ ”عوام کے نمائندے“ کو اس اتحاد سے متعلق تفصیلات بتائی جائیں گی۔ ہمارے جنرل راحیل شریف صاحب کو شاید اس اتحاد کے تحت بنائی کسی ”مشترکہ فوج“ کی کمان کرنا تھی۔ دعویٰ ہوا کہ انہیں سعودی عرب بھیجنے سے قبل حکومت ان کو سونپی ذمہ داریوں کی تفصیلات ”منتخب ایوان“ کے روبرو رکھے گی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جنرل صاحب کئی ماہ قبل اپنے عہدے سے ریٹائر ہوکر سعودی عرب منتقل ہو چکے ہیں۔ اس ملک میں وہ کیا فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی بابت ہمیں کچھ خبر نہیں۔ ”عوامی نمائندوں“ نے اس کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ ”آزاد“ اور ”بے باک“ میڈیا بھی اس ضمن میں قطعاََ خاموش ہے۔
ٹھوس حقائق سے قطعاََ بے خبر ہوتے ہوئے امریکی اور یورپی جرائد میں چھپے مضامین سے ”کھینچے“ مار کر مجھے خود کو سعودی عرب کی اندرونی اور خارجی سیاست کا ”ماہر“ ثابت کرنے کا ہرگز کوئی شوق نہیں اور یہ ہی میری ”مجبوری“ ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے