کالم

پنجاب کا ماتم

نومبر 18, 2017 4 min

پنجاب کا ماتم

Reading Time: 4 minutes

فرقہ واریت اور صوبائیت جیسے مہلک تقسیم کار ہماری پوری قومی تاریخ میں پوری طاقت کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ یہ لاتعداد چھوٹے ہی نہیں بلکہ کئی مہلک سانحات کو بھی جنم دے چکے ہیں۔ پاکستان میں خونریزی کے سب بڑے ذمہ دار یہی ہیں حالانکہ پورا ملک کبھی بھی ان کی لپیٹ میں نہیں رہا۔ فرقہ واریت کے خلاف تو ہمارے ہاں ہمیشہ کھل کر بات ہوتی رہی ہے لیکن لسانیت یا قومیت کی تفریق کے خلاف بات کرنے سے لوگ بڑی حد تک کتراتے ہیں۔ یہ لسانی یا قومی تفریق ہی تھی جس کے سبب ملک دو لخت ہوا اور یہ صوبائیت کا جن ہی ہے جس نے کالا باغ ڈیم کو ملکی تاریخ کا سب سے متنازع پروجیکٹ بنایا۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اسی لسانیت کا شکار ہوکر آج اپنی ان شناختوں سے محروم ہو چکا جس پر کبھی اسے بڑا ناز ہوا کرتا تھا۔ یہ اسی لسانی تفریق کا نتیجہ ہے سندھ واحد صوبہ ہے جو شہری اور دیہی سندھ کے عنوانات سے واضح لسانی تقسیم کا شکار ہے اور اس تقسیم کے نتائج سب سے زیادہ سندھ کے شہروں کو ہی بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ سندھ کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ شہری سندھ کی ایم کیو ایم اور دیہی سندھ کی سندھی قوم پرست جماعتیں لسانیت کی علمبردار سمجھی جاتی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کا ظاہری تشخص ایک ایسی جماعت کا ہے جو لسانیت یا قومیت پر یقین نہیں رکھتی لیکن وہ یہی پیپلز پارٹی ہے جو اپنی جیب میں پڑے سندھ کارڈ کی بنیاد پر پنجاب اور وفاق کو بلیک میل کرتی آئی ہے۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قومی سطح کی سیاست میں پیپلز پارٹی کا جب جی چاہتا ہے صوبائیت کی علمبردار بن جاتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اس دعوے کا پاس بھی نہیں رکھتی کہ وہ چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔

2008ء کے انتخاب میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے سانحے سے ملنے والے ہمدردی ووٹ کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ اگر وہ سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا تو پیپلز پارٹی مرکز میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہ رہتی۔ 2013ء کے انتخاب کے نتائج دیکھے جائیں تو ملک بھر کے ووٹرز اپنی مقامی جماعتوں کو ووٹ دیتے نظر آئے۔ اس الیکشن کی ووٹنگ واضح طور پر صوبائی بنیاد پر ہوئی جو اس لحاظ سے ایک خطرناک رجحان ہے کہ اگر خدا نخواستہ یہ مستقل رجحان بن گیا تو اس سے مرکز پر پنجاب کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی اور پنجاب کی صورتحال اس لحاظ سے بہت نازک ہے کہ صوبائیت کا جن جب بھی بوتل سے نکلا اس کا رخ پنجاب کی جانب ہی رہا۔ ایک زمانہ تھا جب پنجاب سے چھوٹے صوبوں کی شکایات جائز ہوا کرتی تھیں اور اس زمانے میں پنجاب نے اپنے بڑے ہونے کے بہت سے ناجائز فائدے اٹھائے لیکن اس صورتحال کا تدارک کرنے میں نواز شریف نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جس کا نہ صرف احساس موجود ہے بلکہ چھوٹے صوبوں کی جانب سے ان کوششوں کو تسلیم کرکے سراہا بھی گیا ہے۔ زرداری دور میں نواز شریف نے این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب کے حصے سے چھوٹے صوبوں کے لئے جس ایثار کا مظاہرہ کیا وہ تو یقیناً بھولنے کی چیز نہیں لیکن اس ایثار پر پنجاب کی انٹیلی جنشیا کی جانب سے خاموشی بھی قابل تعریف تھی ورنہ کہنے والے کہہ سکتے تھے کہ نواز شریف کون ہوتا ہے ہمارے حصے کے اربوں روپے چھوٹے صوبوں کو دینے والا ؟ 2013ء کے انتخابی نتائج آئے تو ماضی کی روایات پر عمل کرکے نواز شریف کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی مخلوط سیاسی حکومتیں بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس غلط طرز سیاست کو دفن کرکے ان صوبوں کی سیاسی قوتوں کے لئے اقتدار میں شراکت کی راہ خالی چھوڑ دی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کے پی کے اور بلوچستان کی وہ قوم پرست جماعتیں آج بھی نواز شریف کی اتحادی اور حامی نظر آتی ہیں جو ماضی میں بات بات پر پنجاب کو نشانہ بناتی نظر آتی تھیں۔

پنجاب کے رویے میں تبدیلی صرف ایثار کی حد تک نہیں بلکہ یہ برداشت کی بلندیوں کو بھی چھو رہی ہے۔ جنرل مشرف کی عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں ہمیں بلوچستان میں دہشت گردی کی جس لہر کا سامنا ہے اس میں آئے روز پنجاب سے تعلق رکھنے والے نہتے مزدور نشانہ بن رہے ہیں اور وہ بھی اجتماعی شکل میں۔ یہ واقعات وقفے وقفے سے سہی مگر ایک تواتر کے ساتھ ہوتے چلے آ رہے ہیں اور ہو بھی خالص تعصب کی بنیاد رہے ہیں لیکن پنجاب کی جانب سے اس حد تک محتاط طرز عمل نظر آ رہا ہے کہ اس کی انٹیلی جنشیا اور قیادت تو چھوڑیئے وہ نوجوان بھی متعصبانہ ردعمل نہیں دے رہے جو سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں ہیں حالانکہ تعصب کے ردعمل میں تعصب ہی جنم لیتا ہے۔ ہمیں ان کی جانب سے رسمی ردعمل اور اظہار رنج و غم تو نظر آتا ہے لیکن یہ بلوچوں کے خلاف کسی نفرت انگیزی سے مستقل بنیاد پر دامن بچائے ہوئے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ اس قسم کا کوئی واقعہ کسی چھوٹے صوبے کے شہریوں کے ساتھ محض ایک بار بھی پنجاب میں ہو ا ہوتا تو اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ اس پر کسقدر شدید لسانی ردعمل آچکا ہوتا اور بیانات میں ملک ٹوٹنے کے امکانات بھی زیر بحث آچکے ہوتے جو چھوٹے صوبوں کی قیادت کا ایک مستقل وطیرہ ہے۔ زرداری صاحب آج بھی بات بات پر اپنا ’’پاکستان کھپے‘‘ والا احسان جتلاتے نہیں تھکتے اور کون نہیں جانتا کہ وہ احسان نہیں جتلاتے بلکہ دہمکی دے رہے ہوتے ہیں کہ اس ملک کی سلامتی میں نے سنبھال رکھی ہے ۔ ایک پختون کی حیثیت سے میرا احساس یہ ہے کہ اگر پنجاب کا وہ ماضی کا رویہ قابل قبول نہ تھا جس میں چھوٹے صوبے احساس محرومی کا شکار ہوگئے تھے تو یہ رویہ بھی افسوسناک ہے جس کے ہوتے آئے روز بلوچستان سے پنجاب کو درجن سے زائد تابوت بھیجے جاتے ہیں اور وہ محض اس لئے اف نہیں کر پاتا کہ بڑا صوبہ ہے چھوٹے برا مان سکتے ہیں۔ اگر پنجاب کے دانشور اس قتل عام پر اپنی مجبوری کے سبب سخت رد عمل نہیں دے سکتے تو یہ ذمہ داری ہم چھوٹے صوبوں والوں کو ہی پنجاب کی جانب سے نبھانی ہوگی کہ اخوت اور قومی یکجہتی کا تو یہی تقاضا ہے۔ اگر بڑا بھائی برداشت کرتا رہے اور چھوٹا اس کے دکھ بھی نہ بانٹے تو اس کے نتائج بھی ایک نہ ایک دن سنگین شکل میں برآمد ہوتے ہیں۔ گھر پنجاب کا ہو خواہ کسی چھوٹے صوبے کا اس کے صحن میں تعصب کا شکار ہونے والی لاشوں کا آنا ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس قلم کی نوک خاک آلود ہو جو اپنے صوبے یا لسانی اکائی کے حقوق کے لئے تو آواز بلند کرنا جانتا ہو لیکن پنجاب کا ماتم اپنا ماتم نہ سمجھے !

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے