کالم

زوال کا ذمہ دار کون؟

نومبر 20, 2017 4 min

زوال کا ذمہ دار کون؟

Reading Time: 4 minutes

میرے لئے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اس لحاظ سے ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ میں اس بات کا شدت سے قائل ہی نہیں بلکہ خواہشمند بھی ہوں کہ ہمارے دفاعی ادارے مضبوط تر ہوں۔ مجھے ان کی مضبوطی صرف ایک ہی مقصد کے لئے درکار ہے اور وہ ہے ملک کا دفاع۔ لیکن میری بدقسمتی دیکھئے کہ جتنا یہ مضبوط ہوتے ہیں اتنا ہی میرے لئے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ مثلا آئی ایس آئی کا دباؤ بھارت کو محسوس کرنا چاہئے لیکن عجیب بات نہیں کہ یہ دباؤ مجھے محسوس کرنا پڑتا ہے ؟ ملک کا ہر لحاظ سے وفادار شہری ہونے کے باجود میں را نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے دباؤ میں خود کو پاتا ہوں تو یہ المیہ نہیں ؟ کیا بھارت کا ہندو شہری بھی را سے اسی طرح کا دباؤ محسوس کرتا ہے جس کا سامنا ہمیں آئی ایس آئی سے ہے ؟ میں سمجھ ہی نہیں پاتا کہ میں کیا موقف اختیار کروں۔ اگر مضبوط آئی ایس آئی کے موقف سے دستبردار ہوتا ہوں تو میرے وطن کا دفاع کمزور ہوتا ہے جس کی دشمن کو حسرت ہے۔ اور اگر اس ادارے کی مضبوطی کی آرزو کروں تو یوں لگتا ہے جیسے اپنی مشکلات میں اضافے کی دعاء مانگ رہا ہوں۔ اب تازہ مسئلہ ہی دیکھ لیجئے کہ پناما کیس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل عیاں ہوچکا اور صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے جمہوری نظام کو لپیٹا نہ بھی جا رہا ہو تو اسے بری طرح تباہ تو ضرور کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ میں اپنی جمہوری آزادی کے لئے لڑوں لیکن دوسری طرف جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس آئی ایس آئی نے 80 اور 90 کی دہائی میں عالمگیر سطح پر اپنی دھاک بٹھائی تھی وہ اپنے پچھلے تین ڈی جیز کی نالائقیوں کے نتیجے میں آج سوشل میڈیا پر ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے تو یقین مانیئے دل لرز جاتا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ میں زیادہ تفصیل میں جا نہیں سکتا۔ بطور نمونہ چند اشارے سمجھ لیجئے۔ جنرل کیانی کے دور تک ہم افغانستان میں امریکہ جیسی سپر طاقت کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے۔ 2006ء تک تو انہیں خبر ہی نہ ہوسکی تھی کہ ہم ان کے قدموں تلے زمین کو کھوکلا کر چکے ہیں۔ جب انہیں ہوش آیا تو تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ انہوں نے ہمارے دوغلے پن کا بہت واویلا کیا، بے شمار رپورٹیں اور ڈاکومنٹریز تیار کرکے عالمی رائے عامہ کو ہماری لیاقت اور اپنی نالائقی کے ثبوت کے طور پر پیش کئے لیکن اس پوری مہم کے باوجود وہ افغانستان پر ہماری گرفت کمزور نہ کر سکے۔

جنرل کیانی کے دور میں تو ہم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے کہہ رہے تھے کہ "آپ فیصلہ کریں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ؟” اور ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ہم سے صبح طالبان سے مذاکرات کروانے کی تو شام کو سیف ایگزیٹ کی بھیک مانگتے۔ لیکن آج ہماری حالت یہ ہوگئی کہ ہم پر وہ اشرف غنی بھاری پڑنے لگا ہے جسے خود ہم نے دہاندلی کروا کر افغانستان کا صدر بنوایا ہے۔ کسی کو یاد بھی ہے کہ سلالہ حملے کے بعد جنرل کیانی نے افغان ٹرانزٹ کو بطور ٹرمپ کارڈ استعمال کیا تھا ؟ آج نوبت یہ آگئی کہ اشرف غنی افغان ٹرانزٹ کو ہمارے خلاف ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی شرمناک بات ہو سکتی ہے کہ جنرل باجوہ کے دورہ افغانستان کے لئے افغان سفیر کی منت سماجت کرنی پڑی اور دورہ تذلیل پر ختم ہوا۔ افغان سفیر پاکستان کے ٹی وی پر بیٹھ کر کہتا ہے کہ ہم نے جنرل باجوہ سے کہا ہے کہ باتیں بہت ہوگئیں اب آپ کچھ کر کے دکھائیں۔ ایک نظر ایران پر بھی ڈال لیجئے۔ ابھی پچھلے سال ہم ایران کو آنکھیں دکھا رہے تھے۔ ان کے صدر کو ہم نے دورہ پاکستان کے دوران کلبھوشن والے معاملے میں شرمسار کیا تھا اور صرف ایک سال بعد جنرل باجوہ اسی ایران میں تین دن کے لئے جا بیٹھے جس کا حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔ بھارت کے حوالے سے جب نواز شریف کہہ رہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں ہونی چاہئیں تو ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کروایا گیا کہ یہ بھارت کا ایجنٹ اور مودی کا یار ہے اور اسی نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کے تیسرے ماہ ہی خود جنرل باجوہ بھارت کو پیغام بھجوا رہے ہیں کہ واہگہ کے راستے افغانستان تک رسائی کے لئے ہم سے رابطہ کرو جبکہ بھارت آگے سے ہمیں ٹھینگا دکھا رہا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کا دورہ افغانستان ہی نہیں دورہ ایران بھی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی سہولت کاری کے لئے تھا۔ کیا یہ ہے آپ کی فکر و دانش کہ نواز شریف کی جگہ اشرف غنی اور حسن روحانی کے ذریعے بھارت کو رام کرنے کی تگ و دو ہے ؟ جن محاذوں پر آئی ایس آئی کو جیتنا چاہئے تھا وہاں تو ان کی حالت یہ ہے اور جن محاذوں پر انہیں نہیں جیتنا چاہئے تھا وہاں یہ نواز شریف کو فتح کرکے مطمئن بیٹھے ہیں۔ میری مشکل دیکھئے کہ مجھے مذکورہ پروفیشنل ناکامیوں پر ہی صدمے کا سامنا نہیں بلکہ ان کی غیر آئینی فتوحات سے بھی دکھ کا اسیر ہوں۔ اور اب تیسرا صدمہ یہ کہ جس آئی ایس آئی کا بند کمرے میں نام لینے سے لوگ ہچکچاتے تھے وہ سوشل میڈیا پر اس حد تک مذاق بن کر رہ گئی کہ عامر لیاقت جیسا مداری بھی اس کی تضحیک میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کیا کسی پروڈکشن ہاؤس کا ڈی جی پریس کانفرنس کرکے ہمیں بتائے گا کہ اس زوال کا ذمہ دار کون ہے ؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے