کالم

تلاشِ سندھ

دسمبر 5, 2017 6 min

تلاشِ سندھ

Reading Time: 6 minutes

جس دھجی کو لیے پھرتے ہیں گلیوں میں طفلاں
وہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے ؟
(فيض)
(اگر رسول حمزاتوف داغستان کے بجائے وادی سندھ میں پیدا ہوتے تو’’کلچرل ڈے‘‘ کے موقعے پر وہ یہ الفاظ ضرور لکھتے کہ’’وہ دوکان سے ٹوپی اور اجرک تو خرید لایا ہے مگر دریا خان جیسا دل کہاں سے لائے گا؟‘‘)
رسول حمزاتوف نے اپنی مشہور کتاب ’’میرا داغستان‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میں جب فرانس سے واپس آیا تب گاؤں کے بہت سارے لوگ ملنے آئے اور ان لوگوں میں میرے گاؤں کی ایک عورت بھی تھی جس کے بیٹا پیرس میں رہتا تھا ۔ اس عورت نے مجھ سے پوچھا ’’کیا تمہاری ملاقات میرے بیٹے سے ہوئی؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے بیٹے سے ملا تھا۔ اس نے مجھ سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ ’’تم دونوں نے کس زبان میں بات چیت کی؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ ’’ہم نے روسی زبان میں بات کی‘‘یہ بات سن کر اس عورت کو شدید صدمہ پہنچا۔ اس نے حیرت اور افسوس سے پوچھا کہ ’’کیا میرے بیٹے نے تم سے اپنی آوار زبان میں بات نہیں کی؟‘‘ میں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’’دراصل ہمارے وفد میں اور بھی لوگ تھے اس لیے ہماری بات چیت روسی میں ہوئی‘‘ میری وضاحت سن کر وہ عورت خاموش ہوگئی اور اس نے اپنے چہرے پر سیاہ کپڑاڈال لیا۔ ہمارے گاؤں میں جب کسی عورت کا بیٹا مر جاتا ہے تو وہ اپنے چہرے پر سیاہ کپڑا ڈال دیتی ہے!!
ثقافت کے وجود میں زباں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ معاشرتی معاملات میں زباں کی بہت بڑی حیثیت ہوا کرتی ہے۔ بعض اوقات زباں جغرافیہ سے زیادہ جذبات کی حامل ہوجاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ فلسطین کے ایک جلاوطن شاعر نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا کہ :
’’ہم وہاں جانا چاہتے ہیں
جہاں کھیتوں میں فصل
ہماری زباں میں بوئی جاتی ہے
اور ہماری زباں میں کاٹی جاتی ہے
جہاں سمندروں میں مچھلی کا شکار
ہماری زباں ہوتا ہے
جہاں باغات سے پرندوں کو
ہماری زباں میں اڑایا جاتا ہے
جہاں کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں
ہماری زباں میں نکلتا ہے‘‘
یہ زباں ہی ہے جس کے لیے ایک جرمن ادیب نے لکھا تھا کہ ’’زباں حسن کا گھر ہوا کرتی ہے۔ یہ ہمارے لیے سوچتی ہے اور ہمارے جذبات کا اظہار کرتی ہے‘‘
برازیل کے انقلابی ماہر تعلیم پائلو فراری نے لکھا ہے کہ ’’جلاوطنی کی کیفیت اذیت بھری ہوا کرتی ہے۔مگر اپنے وطن سے دور جب کسی جلاوطن شخص کو اتفاق سے کوئی ہم زباں مل جاتا ہے تب اس کو محسوس ہوتاہے کہ اسے تھوڑی دیر کے لیے وطن کی سرزمین مل گئی ہے‘‘
زباں کی اتنی زبردست اور حساس حیثیت ہونے کے باوجود بھی ہم اسے مکمل ثقافت قرار نہیں دے سکتے ۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے کلچر کو لباس تک محدود کردیا ہے!
آج جب سندھ میں سندہی زباں بولنے والے ’’کلچرل ڈے‘‘ منا رہے ہیں اور کشمور سے لیکر کراچی تک سندھی گیتوں کی گونج میں سندھی لوگوں کے سروں پر سندھی ٹوپیاں پھولوں کی طرح کھل اٹھی ہیں اور اجرک کے رنگوں سے اس غریب سرزمیں پر ثقافت کی بہار آئی ہوئی ہے؛ تب بھی سندھ کے سنجیدہ ذہن اجرک کو ثقافتی فتح کا پرچم قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اجرک جو اہلیان سندھ سے محد سے لیکر لحد تک ساتھ رہتی ہے۔ اس اجرک جس کے حوالے سے سندھی ادب میں بہت سارے خوبصورت اشعار بھی ہیں۔ وہ اجرک جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ:
’’ٹھٹے کی ہوا میں گلابی بدن
اجرک میں لپٹا ہے خوشبو کا تن‘‘
وہ اجرک جس کی پرنٹ سندھ کی روایات اور رومانس کی ایک تاریخ محسوس ہوتی ہے۔وہ اجرک بھی موجودہ حالات میں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے افلاس زدہ سندھ کے وجود پرموجود ایک گہرے زخم پر بندھی ہوئی پٹی!!
اور وہ رلی جس پر سندھ کے لوگ جنم لیتے ہیں اور جس پر وہ آخری دسانس لیتے ہیں اور جس کو سندھ کی مظلوم عورتیں اپنے صد چاک روح کی طرح سیتی ہیں۔ وہ رلی بھی اس ثقافت کی روح نہیں جس ثقافت کی جڑیں روایات کی سرزمیں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ وقت کے سفر میں سندھ ان روایات کو کھو چکی ہے۔ وہ روایات جو دراصل معاشرتی معیارات کا مجموعہ ہیں۔
اگر قدیم اور جدید سندھ کے درمیاں پل جیسی شاعری کے یہ بول کسی کے ہونٹوں پر آتے ہیں کہ:
’’میں تجھے پھر ڈھونڈتا ہوں اروشی
میں کہ وکرم بھی ہوں کالی داس بھی‘‘
تو یہ تلاش ان روایات کی ہے جن روایات سے سندھ کی موجودہ نسل محروم ہوچکی ہے۔سندھ کی نسل نو جب لوک کہانیوں میں ان روایات سے جڑی ہوئی داستانیں سنتی ہے تب ان کی روح میں ایک چیخ اٹھتی ہے اور وہ پوچھتے ہیں کہ ’’کہاں ہے وہ سندھ؟‘‘
کہاں ہے وہ سندھ جس کی ایک پہچان مہمان سے کیے جانے والا محبت بھرا سلوک تھا۔
وہ روایات جدید دور میں ختم ہوتے ہوئے جزیروں کی طرح نظر آتی ہیں جب ایک امیر میزبان بھی ایک غریب مہمان کے ہاتھ خود دھلواتا تھا۔
کہاں ہے وہ سندھ ؟
جس کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پتھر پر کھنچی ہوئی لکیر تو مٹ سکتی ہے مگر مرد کی زباں سے کیا ہوا وعدہ کبھی نہیں مٹ سکتا۔
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس میں کہا جاتا تھا کہ ’’بیٹی مطلب سات قرآن‘‘
کہاں ہے سندھ ؟
جس میں دروازے پر آئے ہوئے دشمن کو خون معاف کیا جاتا تھا۔
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس کا اس بات پر ایمان تھا کہ ’’مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس میں ’’مرد کی زباں ایک ہوا کرتی تھی‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس میں آس پاس کے لیے کہا جاتا تھا کہ ’’محلہ تو ماں باپ ہوا کرتا ہے‘‘
کہاں ہے وہ سندھ ؟
جس میں کسی کو شرمندہ کرتے ہوئے یہ کہاوت پیش کی جاتی تھی کہ ’’چڑیل بھی دس گھر چھوڑ کر شکار کرتی ہے‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جو اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ’’کہو کم اور کرو زیادہ‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس کے مجرم صفت افراد بھی کلچرل کوڈ سے بندھے ہوئے تھے ۔
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس میں کہا جاتا تھا کہ ’’وہ چور کمینہ ہے جو گاؤں کے گھر کا صفایا کرے‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس کے ڈاکو عورت سامنے آنے کی صورت میں لوٹا ہوا مال معافی کے ساتھ لوٹادیا کرتے تھے۔
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس میں لوگ دودھ فروخت کرنے کو عیب سمجھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’کیا کوئی درخت اپنی چھاؤں بیچا کرتا ہے!!؟‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جس کے لوگ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ’’عشق اور انتقام کبھی پرانے نہیں ہوتے‘‘
کہاں ہے وہ سندھ؟
جو سختی سے سمجھاتا تھا کہ ’’محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز نہیں ہوتی‘‘
وہ سندھ اب تاریخ کا ایک بھولا ہوا باب بن گیا ہے۔
وہ سندھ اب کہاں ہے؟
جس میں کمزور پر ہاتھ اٹھانا نامردی سمجھا جاتا تھا۔
وہ سندھ تاریخ کے سیلاب میں غرق آب ہوا جو ان روایات کے ساتھ جڑا تھا جو روایات سندھ کے لوگوں کی پہچان تھیں۔
وہ سندھ اب کہیں نہیں جس کے لیے ذوالفقار علی بھٹونے کال کوٹھڑی میں لکھا تھا کہ ’’میں سندھ کا رانو ہوں‘‘
وہ سندھ جو مومل تھا۔ جو انتظار کی آگ میں جلنے کا فن جانتا تھا۔
وہ سندھ جو سسی تھا۔ جو ویرانوں میں پیار کی پکار تھا۔
وہ سندھ جو سوہنی تھا۔ جو سیاہ رات میں کچے گھڑے کے سہارے سرد دریا پار کیا کرتا تھا۔
وہ سندھ جو موکھی تھا۔ جو مۂ کشوں کے بغیر بے معنی تھا۔
وہ سندھ جو نوری تھا۔ جو کینجھر جھیل کا کبھی نہ کملہانے والا کنول تھا۔
وہ سندھ جو ماروی تھا۔جو قید و بند میں وطن سے وفا کی علامت تھا۔
وہ سندھ کہاں گیا؟
جو بھٹ شاہ پر بجتی ہوا وفا کا ساز تھا۔
وہ سندھ جو ایک مقدس تصور تھا۔
وہ سندھ جس کو سیاسی سوداگروں نے ایک کارڈ بنا دیا۔
اس سندھ کا کلچر شادیانوں میں تلاش کرنا عبث ہے۔
وہ سندھ تو ایک نعرہ مستانہ تھا۔
وہ اداس سندھ جس کی جھلک اب بھی ان سروں کے پردے سے اپنی جھلک دکھاتا ہے جب عابدہ پروین وجد میں آکر گاتی ہے کہ:
’’سندھ میری اماں‘‘
وہ سندھ جو ہجر و فراق کی ایک صدا ہے۔
وہ سندھ جو کویل کی کوک ہے۔
وہ سندھ جو سینے سے اٹھتی ہوئی ہوک ہے۔
وہ سندھ غم ہے گداز ہے!
وہ سندھ جو ساز ہے آواز ہے!!
اس سندھ گم گشتہ سندھ کا پتہ کس سے پوچھیں؟
جو صحرائے تھر میں نیم کے درخت کے نیچے منتظر مائی بھاگی کی سسکتی ہوئی صدا ہے۔
وہ سندھ تو جرمِ وفا کی سزا ہے!!
اگر رسول حمزاتوف داغستان کے بجائے وادی سندھ میں پیدا ہوتے تو’’کلچرل ڈے‘‘ کے موقعے پر وہ یہ الفاظ ضرور لکھتے کہ’’وہ ٹوپی اور اجرک تو خرید لایا ہے مگر دریا خان جیسا دل کہاں سے لائے گا؟‘‘
دھرتی کے سپوت بازاروں میں نہیں بکتے۔ وہ تو تاریخ کے کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ وہ مال کمانے نہیں تاریخ بنانے آتے ہیں۔ ان کا کردار کلچر بن جاتا ہے۔ وہ کلچر جس کی روح آہستہ آہستہ وداع ہوجاتی ہے اور پیچھے رہ جاتا ہے صرف دکھاوے جیسا جسم!
اور اجرک کا ثقافتی پرچم بن جاتا ہے اس سرزمین کا کفن!!
جو اپنی دھرتی میں دفن ہونے کی تمنا کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہے:
’’ دفن کردو مجھے کہ سانس آئے
دیر سے نبض کچھ تھمی سی ہے!!‘‘

بشکریہ اعجاز منگی فیس بک

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے