کالم

حدیبیہ میں جے آئی ٹی سفارشات

دسمبر 12, 2017 4 min

حدیبیہ میں جے آئی ٹی سفارشات

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

حدیبیہ پیپرملز ریفرنس کھولنے کیلئے قومی احتساب بیورو کی اپیل سماعت کے آغاز میں جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسکیوٹر کو ہدایت کی کہ پہلے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں تاخیرکی وجوہات پرمطمئن کریں کہ مقررہ وقت میں سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا گیا؟ زائد المیعاد اپیل کو کیوں سنا جائے، اس کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کریں گے۔ نیب کے خصوصی پراسکیوٹر عمران الحق نے کہاکہ گزشتہ روزکچھ دستاویزات دستیاب نہ تھیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے نئے شواہد کی بات کی تھی،آج عدالت میں پیش کررہاہوں۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ کیس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پڑھیں۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ کیا یہ سفارشات عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں؟ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ حدیبیہ کا لفظ فیصلے میں شامل نہیں ہے۔ پراسیکیوٹر نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ اور عدالتی فیصلے میں جن افراد کا ذکرہے وہی لوگ حدیبیہ ریفرنس میں بھی شامل ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھاکہ اس تعلق کو کیسے جوڑیں گے؟ جسٹس مظہرعالم نے پوچھاکہ کیا پانامہ فیصلے میں عدالت نے جے آئی ٹی سفارشات پر کوئی مخصوص آبزرویشن یا ہدایات جاری کی ہیں؟۔نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جے آئی ٹی میں جن افراد اورشواہد کاذکر ہے وہ حدیبیہ سے بھی متعلق ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہی شواہد سنہ دوہزار میں بھی دستیاب تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ اسحق ڈار کے بیان میں بھی یہی چیزہے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھاکہ فوجداری نوعیت کا الزام کیاہے وہ بتائیں؟ یہ سول نہیں فوجداری مقدمہ ہے۔نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ایسے اکاﺅنٹس سے رقم حدیبیہ ملز کیلئے آئی جو مشکوک تھے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا پھر تو یہ ٹیکس کا معاملہ بن جاتاہے، فوجداری کیس میں پہلے فرد جرم ہوتی ہے، ملزم کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس پر الزام کیا ہے، پیسے ادھر سے ادھر گئے، ادھر سے ادھر آئے، یہ کہانیاں ہیں، فرد جرم بتائیں؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ رقم موجود ہونے کا معاملہ ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ پھر یہ دوالزامات ہوگئے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ بظاہر ایسا ہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ بیس سال پرانا کیس ہے، ابھی تک بظاہر کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا معلوم کرنے میں مزید پچاس سال لگیں گے؟۔جسٹس مشیر عالم نے سوال کیاکہ کیا ملزمان نے عوامی عہدے کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فائدہ اٹھایا؟۔نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن کرنسی اکاﺅنٹس منجمد کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ پورا جملہ بولیں پھر کیا ہوا، الزام کیا ہے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ اس دوران عام لوگ فارن کرنسی صرف پاکستانی روپے میں تبدیل کرکے نکال سکتے تھے جبکہ ملزمان نے فائدہ اٹھایا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ اٹھانوے سے دوہزار سترہ آگیا مگر نیب پرچیزیں واضح نہ ہوئیں۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ حدیبیہ کے اکاوئنٹس میں جس صدیقہ سید کی رقم آئی تھی وہ کس نے نکلوائی، اسحاق ڈار نے یا کسی اور نے؟۔ اس بارے میں کیا ثبوت ہے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹرنے کہاکہ کسی نے نکوائے تھے مگر چونکہ اکاﺅنٹس اصل نہ تھے اس لیے صدیقہ سید نے نہیں نکلوائے تھے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ یہی تو نیب نے معلوم کرنا تھا کہ کس نے نکلوائے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ دستخط دیکھ کر معلوم کرلیتے، ان دستخطو ں کا فرانزک کرلیتے، جے آئی ٹی میں تو ضمنی شواہد ہیں،اصل بنیادی شواہد بتائیے۔جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب نے کچھ کیا، آپ صرف بیانات پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ کم ازکم کسی اکاوئنٹ ہولڈر کا دستخط ہی لے لیتے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ جن کے اکاﺅنٹس کھولے گئے ان کا انکم ٹیکس ریکارڈ ہی نکال لیتے، یہ ثابت کرنا نیب کوہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ اکاﺅنٹس ہولڈرز کو سوالنامہ بھیجاتھا مگر جواب نہیں دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ فرد جرم کیا ہے، اگر اکاﺅنٹس ہولڈرز کی رقم غیرقانونی تھی اور انہوں نے حدیبیہ میں لگادی تو اس میں جرم کیا ہوگا؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ 164کے بیان میں اسحاق ڈار نے ان رقوم کے نکلوانے کا اعتراف کیا ہے، عدالت اجازت دے تو پڑھ لوں۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ ضرور پڑھیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ بیان بطور ملزم تھا اور کیا یہ بیان کسی شریک ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال ہو سکتا ہے؟۔نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ بطور ملزم بیان تھا اور استعمال ہوسکتاہے تو جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ قانون کہتا ہے کہ ملزم کا بیان شریک ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا صرف بیان دینے والے کو گواہ کے طور پر کٹہرے میں لایا جاسکتاہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اسحق ڈار کے بیان کے مطابق یہ سارے اکاﺅنٹس اس نے شریف خاندان کی ہدایات پر کھولے اور رقم باہر منتقل کرنے کیلئے اپنے بھانجے موسی غنی کے ذریعے منی لانڈرنگ کی ۔جسٹس مشیرعالم نے پوچھاکہ کیانیب نے اب ان تمام بنک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے مثبت جواب دیاتو جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہ ریکارڈسنہ دوہزار میں بھی دستیاب تھا۔ بتائیں اسحاق ڈار کو کیا فائدہ ہوا جب رقم شریف خاندان کی تھی اور انہی کے پاس گئی؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ وزیرخزانہ بن گئے۔ پراسیکیوٹر نے اسحق ڈار کا بیان پڑھ کر بتایا کہ یہ اعترافی بیان پچیس اپریل سنہ دوہزار کو مجسٹریٹ کے سامنے قلمبند کیا گیاتھا۔ جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ قانون کے مطابق ایسا بیان صرف نیب عدالت یا چیئرمین کے سامنے رکارڈ کیاجاسکتاتھا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ایسا نہیں ہے قانون اس بارے میں خاموش ہے۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ قانون دوبارہ پڑھ لیں ایسا ہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس بیان کی قانونی حیثیت کیاہے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ قانون میں ترمیم کرلی گئی تھی اس لیے بیان مجسٹریٹ کے سامنے بھی دیا جاسکتا تھا۔ جسٹس قاضی فائز کہا کہ بیان پچیس اپریل اور قانو ن میں ترمیم پانچ جولائی کو کی گئی، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بیان کی وجہ سے ترمیم کی گئی۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ اگر اسحاق ڈار کی صدارتی معافی ختم کردی جائے تووہ بطور ملزم کھڑا ہوگا مگر نیب عدالت میں اس کی استدعا نہیں کر رہا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آئین کے مطابق ملزم کے بھی حقوق ہیں طویل عرصے بعد دوبارہ کیس کھولتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، بتایا جائے کہ ملزم کے حقوق زیادہ متاثر ہوئے یا ریاست کے، اس پر بھی معاونت کریں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ ملزم کو جلاوطن کیے جانے سے فائدہ کس کو ہوا۔عدالت کو زائدالمعیاد اپیل دائر کرنے پر مطمئن کرنے پر کل دلائل دیے جائیں۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے