کالم

سینیٹرز اور آرمی چیف

دسمبر 21, 2017 4 min

سینیٹرز اور آرمی چیف

Reading Time: 4 minutes

ایک طویل وقفے کے بعد امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ”فکر“ لاحق ہوگئی ہے۔ اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی ایوان صدر نے ایک دستاویز جاری کی۔ اسے ”سب سے پہلے امریکہ“ کی خواہش میں طے ہوئی قومی سلامتی کے بارے میں حکمت عملی کا نام دیا گیا۔

ہمارے خطے کو اس دستاویز میں کافی اہمیت دی گئی ہے۔ بات اس ضمن میں لیکن 16برس سے افغانستان میں جاری جنگ تک ہی محدود نہیں رہی۔ پاکستان کو اس جنگ میں طوالت کا مختلف حوالوں سے ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا ہے۔
افغانستان کا ذکر ہو تو امریکی انتظامیہ پاکستان سے Do Moreکا تقاضہ کئی برسوں سے کرتی چلی آئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے نمودار ہونے کے بعد افغانستان کو اب مگر صرف پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کے تناظر میں نہیں دیکھا جارہا۔ اس قصے کو ”علاقائی“ بنا دیا گیا ہے اور افغانستان سے برما تک پھیلائے امریکی سوچ کے ”جنوبی ایشیائ“ میں بھارت کو علاقائی تھانے دار بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
جنوبی ایشیاءکے تھانے دار بنائے بھارت کو امریکہ ہر صورت مطمئن دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے شکایت ہے کہ امریکہ کا ”دیرینہ دوست“ جسے ٹرمپ کی زبان میں دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے لئے "Massive” رقوم فراہم کی گئی ہیں، صرف افغانستان ہی میں متحرک ”دہشت گردوں“ کے لئے ”محفوظ پناہ گاہ“ نہیں۔ پاکستان میں، امریکی سوچ کے مطابق، ایسے گروہ بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ برپا ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ ہوئی کسی جنگ کے ”ایٹمی“ ہو جانے کے خدشات بھی کوئی نئی بات نہیں۔ کلنٹن انتظامیہ کو کارگل جنگ کے دوران اسی فکر نے پریشان کیا تھا۔ ممکنہ ایٹمی جنگ کو ٹالنے کے نام پر ہی 4 جولائی 1999 کے دن اپنے ملک کے یومِ آزادی کی تقریبات میں حصہ لینے کی بجائے کلنٹن نے ان دنوں کے پاکستانی وزیر اعظم-نواز شریف- سے طویل ملاقات کی۔ بھارتی وزیراعظم کو ان کی موجودگی میں کئی ٹیلی فون کئے اور بالآخر پاکستان کو کارگل سے اپنی فوجیں ہٹانے پر مجبور کیا۔
نواز شریف کے بعد ”فاتح کارگل“ جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے تو صدر بش کو نائن الیون کے بعد سے ان محبت ہوگئی۔ پورے دو برس تک Mush اور Bush ایک دوسرے کے Tight Buddiesشمار ہوتے رہے۔ ستمبر2003 میں لیکن لیبیا اور ایران کے ایٹمی پروگراموں کے تناظر میں ڈاکٹر قدیر والی کہانی شروع ہو گئی۔ جنرل مشرف نے کافی مہارت سے اس کہانی سے جان چھڑائی۔ اس کے باوجود ہمارے ایٹمی اثاثوں کے ”غیر محفوظ ہاتھوں“ پہنچ جانے کی داستان جاری رہی۔ اس داستان کے بل بوتے پر امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ”محفوظ بنانے“ کا ذمہ لیا۔ باہمی تعاون سے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے جنہوں نے بش انتظامیہ کو یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کردیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ”خدشات“ کا ذکر مگر اوبامہ کے دوسرے دورِ صدارت میں دوبارہ شروع ہوگیا۔ ان خدشات کی بنیاد اگرچہ پاکستان کی وہ خواہش تھی جس کے ذریعے وہ Tactical Weapons کے ذریعے اپنے Deterrence کو مزید توانا بنانا چاہ رہا تھا۔ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے ”غیر محفوظ ہاتھوں“ تک پہنچ جانے کا ذکر نہیں تھا۔
پیر کے روز جو دستاویز جاری ہوئی ہے اس میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خود کو ایٹمی اثاثوں کا ایک ”ذمہ دار محافظ“ (Responsible Steward) ثابت کرے۔ مجھے اس لفظ کے استعمال نے چونکا دیا۔ تھوڑی تحقیق کے بعد دریافت یہ بھی ہوا کہ چند روز قبل راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر دئیے دھرنے نے ایٹمی اثاثوں کے”غیر محفوظ ہاتھوں“ تک پہنچ جانے والی کہانی کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ واشنگٹن میں موجود ہمارے سفارتی نمائندوں سے اس کا باقاعدہ اظہار ہوا تھا۔ وہ ”معاہدہ“ جس کی بدولت یہ دھرنا ختم ہوا، اس کہانی کو مزید مواد فراہم کرنے کا سبب ہوا۔
میری شدید خواہش تھی کہ ایوانِ بالا میں موجود ہمارے سینیٹرز آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے چار گھنٹوں تک پھیلی ان کیمرہ بریفنگ کے دوران اپنی توجہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسلسل آئے پیغامات تک محدود رکھتے۔ میں اگست 2017سے آتے ان پیغامات کو ”مخاصمانہ“ قرار دیتا رہا ہوں۔ آغاز ان پیغامات کا اس تقریر سے ہوا جو 21 اگست کے دن صدر ٹرمپ نے اپنی ”نئی“ افغان پالیسی متعارف کروانے کے بہانے کی تھی۔
پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے اس تقریر کو بہت سنجیدگی سے لیا تھا۔ ایک طویل وقفے کے بعد اس تقریر پر غور کرنے کی خاطر قومی سلامتی کونسل کے طویل اجلاس ہوئے۔ ان اجلاسوں کے بعد پاکستان کے وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ واشنگٹن بھی گئے۔ امریکہ کا وزیر خارجہ یہاں آیا اور آخری دورئہ پاکستان امریکی وزیر دفاع نے اس ماہ کے آغاز میں کیا تھا۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر بھی اب کافی تواتر کے ساتھ GHQجاتا دکھائی دیتا ہے۔
مجھے گماں تھا کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان طویل مشاورت کے بعد جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اسے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں مہارت کے ساتھ برتا گیا۔ شاید اسی کے نتیجے میں امریکی وزارتِ دفاع نے اپنی پارلیمان سے پاکستان کے لئے رقم مانگتے ہوئے حافظ سعید کے ضمن میں مثبت دکھتی لچک دکھائی تھی۔پاک-امریکہ تعلقات میں اسکے باوجود کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی اور اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کا تازہ ترین بیان بھی اہم تھا جو اس نے 13اگست کے دن ہوئے ایک سیمینار میں دیا ہے۔ اس بیان میں واضح الفاظ میں اس خدشے کا اظہار ہوا کہ پاکستان کے ”چند علاقے“ دہشت گردوں کے کنٹرول میں جاسکتے ہیں۔ اب وائٹ ہاﺅس سے پیر کی صبح ایک اور دستاویز جاری ہوگئی ہے۔
کاش سینیٹ میں موجود ہمارے نمائندگان آرمی چیف سے سوالات اٹھاتے ہوئے صدارتی نظام یا دھرنے وغیرہ کا ذکر کرنے کی بجائے صرف امریکہ سے آئے ان پیغامات تک ہی محدود رہتے۔ایسا ہوجاتا تو شاید ہماری جانب سے قومی موقف پر مبنی کوئی ٹھوس جوابی پیغام دینے میں نمایاں پیش رفت ہوئی نظر آتی۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے