کالم

چوہے بلی کا ڈائیلاگ

دسمبر 24, 2017 6 min

چوہے بلی کا ڈائیلاگ

Reading Time: 6 minutes

مطیع اللہ جان

لو جی فوج کی قومی سلامتی کمیٹی کو دی گئی بریفنگوں سے حکومت تو پہلے ہی بالادست تھی اب پارلیمنٹ کےپورے ایوان بالا پر مشتمل ایک کمیٹی میں آرمی چیف اور انکے رفقا کی بریفنگ سے آئین قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی بھی ثابت ہو گئی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں ایسی ہی بریفنگوں کی بنیاد پر وزیر اعظم ، انکے وزیر دفاع اور وفاقی کابینہ پر پہلے ہی افغانستان اور کشمیر پر قومی بیانیہ اور پالیسی ترتیب دینے کا الزام لگ رہا تھا۔ اب سینیٹ میں آرمی چیف کی قومی سلامتی کے امور اور خارجہ پالیسی پر بریفنگ کے بعد سینیٹ چیئر مین اور انکے ایوان بالا کا نام بھی ایف آئی آر میں آجائے گا۔ جناب رضا ربانی صاحب بجا طور پر کہہ سکیں گے کہ "سجناں دا ناں وی ایف آئی آر اچ اے”۔
عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے کان میں آرمی چیف نے جو سرگوشی کی ہے اسکے بعد محلے میں اس آئینی ادارے کی طرف سب رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ نجانے چودھری نے کان میں ایسا کیا کہہ دیا ہے۔ اس بریفنگ کو خفیہ ماحول میں رکھ کر اسکی اہمیت میں ایسا ہی اضافہ کر دیا گیا ہے جیسے وزرات اطلاعات کی فائلوں میں لگے اخباری تراشے جن پر سیکرٹ (خفیہ) کی مہر لگا دی جاتی ہے ۔ کچھ سینیٹر حضرات نے تو اس "خفیہ” بریفنگ سے متعلق بھی میڈیا سے بات کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بریفنگ بھی وہ پاکستانی کپڑا تھا جسے بر آمد کر کے جاپانی مہر کے ساتھ درآمد کیا گیا اور پھر مہنگے داموں پاکستانیوں کو بیچ دیا گیا۔ مگر اس ” بالا” ایوان کو اتنی اجازت بھی نہ ملی کہ وہ کسی پڑھے لکھے سینیٹر یا کسی پیشہ ور بابو کے ذریعے میڈیا کو اس خفیہ اجلاس کے بارے میں بریف کر سکتا ۔اس "ایوان بالا” کی چھت کے نیچے ایک باوردی فوج کے ترجمان نے قوم کو مطلع کیا کہ انکے نمائندوں کو دی گئی بریفنگ کیا تھی۔ یقیناً فوجی ترجمان کا بیان "ایوان بالا” کا نہیں آرمی چیف کا منظور شدہ تھا۔”ڈان لیکس” کے دودھ کے جلے ہوئے سیاستدان آرمی چیف کی بریفنگ کی چھاج کو بھی پھونک پھونک کر پیتے نظر آ رہے ہیں۔

سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں کچھ عرصہ پہلے "قومی ڈائلاگ” کی تجویز دی تھی- مگر اس سے پہلے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو بھی پورے ایوان بالا پر مشتمل ایسی ہی کمیٹی سے خطاب کا موقع بھی دیا تھا۔اس ڈائلاگ نما خطاب کے بعد آج عدلیہ کے سربراہ عوامی تقریبات میں جو جزباتی تقاریر کر رہے ہیں اور ہسپتالوں کے دورے فرما رہے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔اور اب کچھ لوگ آرمی چیف کے دورہ ء "ایوان بالا” کو بھی اسی قومی ڈائلاگ کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔

جناب رضا ربانی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاست میں فوج کے کردار سے متعلق بے دھڑک سخت بیان داغ دیتے ہیں۔ مگر یہ تاثر بھی ہے کہ جمہوریت کے لیے انکا ٹھوس مؤقف محض بیانات اور دکھاوے کے اقدامات تک محدود ہے۔ پارلیمنٹ میں”دستور گلی” اور یادگار شہداء جمہوریت تو چیئرمین سینیٹ کی رضا سے بن گئی مگر دوسری طرف فوج کو ایک برابر کے سیاسی فریق کی صورت ” قومی ڈائلاگ ” کا حصہ بنا کر اسکے ماورائے آئین سیاسی کردار کو تسلیم بھی کیا گیا ہے۔پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی آمد پر رضا ربانی کی ظاہری خواہش کے باوجود آرمی چیف نے اس دستور گلی میں قدم تک رکھنا گوارہ نہ کیا اور اس گلی کے دروازے پر کھڑا ہو کر اس پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور چل دئیے- دستور گلی میں فیلڈ مارشل ایوب خان ، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف جیسے فوجی آمروں کے ادوار کو سیاہ رنگ سے نمایاں کیا گیا تھا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایک آئینی ادارے کا ایک ماتحت ادارے سے ڈائلاگ کرنا عجب بات نہیں تو بھی فوج کے سربراہ سے خارجہ و دفاعی پالیسیوں پر سوالات کر کے کیا ثابت کیا گیا ہے؟اگر کچھ ثابت ہوا ہے تو وہ یہ کہ خارجہ اور دفاعی امور پر آئین ،قانون اور حکومت سے ماورا پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل کرنا یا نہ کرنا فوج کی مرضی یا ایک ” زمینی حقیقت "۔

پارلیمنٹ اور خاص کر ” ایوان بالا” کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک منتخب حکومت سلامتی ، خارجہ اور دفاعی امور پر اپنا آئینی کنٹرول نہیں جتا پا رہی تو کسی ماتحت ادارے کی طرف سے بریفنگ لیکر پارلیمنٹ کو بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ جناب رضا ربانی نے آرمی چیف کو براہ راست پارلیمنٹ میں بریفنگ کی دعوت دیکر اور پھر ” ایوان بالا” کے ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور حیدری کے ذریعے انکا بھرپور استقبال کر کے ریاست کے ایک ستون یعنی حکومت کو کمزور کیا ہےایک آئینی اور قانونی "چین آف کمانڈ” کو توڑا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کو یہی بریفنگ وزیر اعظم پاکستان یا وزیر دفاع اور وزیر خارجہ سے لینی چاہیے تھی۔ بد قسمتی سے ہمارے وزیراعظم ، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے بھی آرمی چیف کی سینیٹ میں دعوت پر خاموشی اختیار کر کے اپنی کم علمی اور بے اختیاری کا برملا اعتراف کیا ہے۔ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے پیغام دیا گیا ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم ،وزیر خارجہ اور وزیر دفاع قومی سلامتی، دفاع اور خارجہ پالیسی امور پر وہ معلومات و اختیار نہیں رکھتا جو آرمی چیف رکھتا ہے۔ ” بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی”۔ مگر سینیٹ چیئرمین اس رسوائی کی وجہ حکومت سے پوچھنے کی بجاۓ رسوا کرنے والوں سے ڈائلاگ کی بات کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

جو وزیر خارجہ افغانستان اور کشمیر پر ” لکیر کا فقیر” ہو اور جس وزیر دفاع کو اپنی وزارت اور جی ایچ کیو میں گارڈ آف آنر ” جوگا” نہ سمجھا جائے اور جس وزیر اعظم کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد بھی اپنے علم اور ذہانت کے اظہار پر اتنا اعتماد نہ ہو کہ وہ آرمی چیف کی جگہ خود "ایوان بالا” کو بریف کرے، اور جو ایوان بالا کا ناظم وفاقی حکومت اسکے سربراہ اور اسکے وزیر وں کو قومی سلامتی ، خارجہ اور دفاعی امور پر بریفنگ دینے کے قابل نہ سمجھتا ہو بلکہ کسی بریفنگ کے بعد خود کو یا کسی ساتھی سینیٹر کو میڈیا بریفنگ "جوگا” نہ سمجھتا ہو تو ایسی ذہنی حالت اور سوچ جمہوریت نہیں محض پروٹوکول جمہوریت کی عکاس ہوتی ہے۔یہ وہ پروٹوکول جمہوریت ہے جس کے تحت آرمی ہیڈ کواٹر میں شہدا کی تقریب میں سینیٹ چئیرمین کی کرسی آرمی چیف کے ساتھ نہ رکھی گئی ہو تو تقریب کا بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ چاہے وزیر دفاع کی کرسی کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہو۔ اسیطرح وہ پروٹوکول جمہوریت جس میں گریڈ بائیس کے کسی پولیس آفسر کو آج تک سینیٹ سے خطاب تو درکنار کسی ڈپٹی چیئرمین کے ذریعے اسکا استقبال بھی نہیں کیا گیا۔ وہ پروٹوکول جمہوریت جس میں چیئرمین سینیٹ اپنے معزز رکن کے ساتھ کسی فوجی حوالدار یا صوبیدار کی بدسلوکی پر قوائد کے مطابق کاروائی کی بجائے جب ٹیلی فون ملائے تو آرمی چیف فون پر اس سے بات کر کے ایکشن کی یقین دہانی کرادے اور جب اس فون پر گفتگو کا اعلان سینیٹ میں کیا جائے تو پورا ایوان اپنے اس ” اعزاز” پر ڈیسک بجائے ۔

پارلیمنٹ ، حکومت اور عدلیہ تینوں آئینی ستونوں کے حواس پر اس وقت فوج کا ادارہ سوار ہے۔ آرمی چیف کی پارلیمنٹ میں آمد ہو، عام عدالتوں کی بجائے دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام ہو یا وفاقی حکومت اور اسکے وزیر دفاع کی خارجہ اور دفاعی پالیسی سازی میں بے بسی ہو یا فیض آباد دھرنے جیسی حکومت ہٹاؤ تحریکیں ختم کرنے میں فوجی جرنیل کی ضمانت ہو یوں لگتا ہے کہ تین آئینی ستون اپنا آئینی کردار بھول کر فوج کے سامنے نمبر ٹانکنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے بے بسی ، عدم تحفظ یا لاچارگی کہیں اب تو میڈیا بھی اس کھیل میں شامل ہو گیا ہے ۔ کسی زمانے میں صحافیوں کو خریدنے کا الزام لگتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب فوج کے زیر انتظام کاروباری ادارے اتنے پھلے پھولے نہیں تھے۔ اب صحافی تو کیا پورے کے پورے میڈیا کے ادارے خریدے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے ان مخصوص اداروں کو قانون کا پابند بنانے والے پیمرا جیسے ریگولیٹری ادارے کے ساتھ جو کچھ دھمکی امیز ٹیلی فون کالوں اور حالیہ عدالتی فیصلوں نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اور یہی کچھ حکومت اور حکومتی جماعت یا چند دوسری نظریاتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ عدالت میں درخواست ڈالی جاتی ہے تو خبر بنتی ہے۔ عدالت نوٹس جاری کرتی ہے تو خبر بنتی ہے۔ عدالت کاروائی میں زبردست ریمارکس دیتی ہے تو خبر بنتی ہے، فیصلہ محفوظ ہوتا ہے تو خبر بنتی ہے، کافی عرصے بعد زبانی فیصلہ سنایا جاتا ہے اور وجوہات فوری جاری نہیں ہوتی تو خبر بنتی ہے اور متاثرہ فریق کے پاس جواب کے لیے وجوہات ہی نہیں ہوتی اور پھر ایک دن وجوہات سنائی جاتی ہیں تو خبر بنتی ہے اور تب تک متاثرہ فریق اتنا مایوس ہوچکا ہوتو ہے کہ وہ ان وجوہات کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتا۔

ہماری سیاست میں ” غیر سیاسی” اداروں کا اپنے ” حلف” کے برخلاف کردار اتنا بڑھ چکا ہے کہ معاملات ڈائلاگ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ "سٹاک ہومزسینڈروم” کی مانند ہماری قوم اور ہمارے ادارے اس مغوی کی مانند ہیں جو اپنے اغوا کاروں کی محبت میں گرفتار ہو کر ان سے گفتگو کو ہی اعزاز سمجھتا ہے۔ ایسے میں سینیٹ جیسے ادارے اور چیئر مین سینیٹ جیسے سیاستدانوں کو پروٹوکول جمہوریت سے آگے بڑھ کر اور اپوزیشن کی سوچ سے باہر نکل کر اعلانیہ طور پر حکومت جیسے آئینی ستون کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اگر ڈائلاگ ہونا ہے تو آئینی ستونوں کے درمیان تاکہ سب متحد ہو کر کسی بھی ماتحت ادارے کو آئین کے سامنے جوابدے بنا سکیں ۔ وگرنہ پھر ایسے ڈائلاگ تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ڈائلاگ کمزوری کی پوزیشن سے نہیں طاقت کی پوزیشن سے کرنا چاہیے کیونکہ چوہے کا بلی سے ڈائلاگ کیسا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے