کالم

آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

جنوری 8, 2018 4 min

آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

Reading Time: 4 minutes

حکایتوں میں بیان کردہ واقعات سے بے پناہ مماثلت رکھنے والی باتیں جب آپ کی آنکھوں کے سامنے ہونا شروع ہوجائیں تو دل خوف سے کانپ اُٹھتا ہے۔ایسی باتوں کا انجام تباہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی مگر آپ انہیں روک نہیں پاتے۔ پورا معاشرہ کسی طلسم کا شکار دکھائی دیتا ہے اور کسی بھی فرد کے پاس کوئی ایسا نسخہ یا وظیفہ موجود نہیں ہے جو اس سے نجات دلاپائے۔ ہلاکو خان کا لشکر جب بغداد کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس کے بازاروں میں طوطے کے حرام یا حلال ہونے کے بارے میں مناظرے ہورہے تھے۔ نادر شاہ کے بارے میں ”ہنوز دلی دوراست“ والا ورد ہوتا رہا‘ بلی کے خوف سے کبوتر کی بند ہوئی آنکھیں‘ شترمرغ کا سر اور ریت۔

جدید اُردو ادب کو سادگی وپرکاری عطا کرنے والے منشی پریم چندنے ”شطرنج کے کھلاڑی“ لکھی تھی۔ واجد علی پیا کا اودھ انگریزوں کے نرغے میں آچکا تھا مگر اس کی اشرافیہ کی نمائندگی کرتے دو کردار ہمہ وقت بساط بچھائے شہ مات والی چال ڈھونڈرہے تھے۔ ذکر بہادر شاہ ظفر کی دلّی کا بھی اکثر اس کالموں میں ہوتا رہا ہے۔
2018کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی صدر نے جو پہلا ٹویٹر پیغام لکھا موضوع اس کا پاکستان تھا۔ ہم نے اسے ٹرمپ کی سیماب طبیعت کا اظہار سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ فرض کرلیا کہ وہاں کی Establishmentاس کی طرح نہیں سوچتی۔ ہماری اہمیت کو محسوس کرتی ہے۔ ہمیں اپنے حریفوں کی صف میں دھکیلنا نہیں چاہتی۔رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوجائے گا۔
ٹرمپ کے ٹویٹر پیغام کے چند ہی روز بعد مگر اس کے مشیر برائے قومی سلامتی نے وائس آف امریکہ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ نام اس مشیر کا جنرل میک ماسٹر ہے۔ بہت تحقیق کے بعد اس نے ویت نام جنگ کے بارے میں ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ Dereliction of Duty اس کتاب کا نام ہے۔ امریکہ اور یورپ کی کئی دفاعی یونیورسٹیوں میں یہ نصاب کی صورت پڑھائی جاتی ہے۔ بنیادی پیغام اس کتاب کا یہ ہے کہ اگر کسی ملک سے الجھ جاﺅ تو یکسو ہو کر اسے مکمل شکست سے دوچار کرنے کا تہیہ کرلو۔ پاکستان کو اس نے ایسا ملک قرار دیا ہے جو اپنے ”سفارتی اہداف“ کے حصول کے لئے ”دہشت گردی“ کو بطور ایک ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت 1992 سے دنیا کو یہ کہانی بیچ رہا ہے۔ اس کے اختیار کردہ الفاظ کو میک ماسٹر نے ہوبہو دہرادیا۔ ہمارے کانوں پر لیکن جوں تک نہیں رینگی۔
بلوچستان رقبے کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ افغانستان اور ایران کا ہمسایہ۔ ساحل اس کا 770 کلومیٹر لمبا۔ وہاں گوادر بھی ہے جہاں ان دنوں اپنا یار-چین- بھرپور عزم اور توانائی کے ساتھ موجود ہے اور پاکستان کے دشمنوں کو یہ موجودگی ہضم نہیں ہو پا رہی۔ نیویارک اور لندن کے چند بہت ہی مشہور بازاروں میں ”فری بلوچستان“ کے اشتہار لگائے گئے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے2016 کے آغاز میں اپنے ملک کے یوم جمہوریہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس صوبے کے لوگوں کو ”آزادی“ دلوانے کا عہد کیا تھا۔
ہمارے سینیٹ کے انتخابات کے بہت ہی قریب لیکن بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد داخل کروادی گئی ہے۔ سردار ثناءاللہ زہری اس تحریک سے محفوظ بھی رہے تو استحکام کو یقینی نہیں بناپائیں گے۔محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن وفاق میں نون لیگ کے اتحادی ہیں۔ وہ دونوں مگر فاٹا کا ریاستِ پاکستان میں مکمل انضمام نہیں چاہتے۔ فاٹا جیسے ”حساس“ معاملے پر متحد ہوئے اچکزئی اور مولانا مگر بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں ایک دوسرے کے ویری ہیں۔ اچکزئی زہری کو بچانا چاہ رہے ہیں مگر مولانا اس سے نجات کے خواہاں۔ ساتھ ہی ساتھ زہری سے ناراض ہوئے بلوچوں کا گلہ یہ بھی ہے کہ وہ ہمہ وقت اچکزئی کی جی حضوری میں مصروف رہتے ہیں۔ اس شکایت کی گہرائی میں پشتون-بلوچ منافرت کے امکانات چھپے ہوئے ہیں جن کا بروقت تدارک ضروری ہے۔
2008سے ”گڈگورننس“ کی علامت بنائے پنجاب کا ذکر کریں تو یہاں طاہر القادری ایک بار پھر نازل ہوچکے ہیں۔ پیر سیالوی کو رانا ثناء اللہ کا ا ستعفیٰ درکار ہے۔ 13جنوری کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ جس مسئلہ کی نسبت سے یہ ڈیڈ لائن دی گئی ہے اس کی بنیاد پر چند ہی ہفتے قبل راولپنڈی کے باسی اسلام آباد سے فیض آباد چوک پر دئیے دھرنے کی وجہ سے 22دن تک تقریباََ کٹے رہے۔ بالآخر ریاستِ پاکستان کو ایک دستاویز پر دستخط کرکے دھرنا دینے والوں کے سامنے جھکنا پڑا۔زاہد حامد کو وزارتِ قانون سے استعفیٰ دینا پڑا۔بلوچستان میں آئی تحریک عدم اعتماد کے بعد بہت سنجیدگی سے سوالات یہ بھی اُٹھ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات بروقت ہوپائیں گے یا نہیں۔ مارچ میں سینیٹ کے انتخاب نہ ہوئے تو وفاقی حکومت کسی بھرتے پر اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی۔
سوالات ہی سوالات ہیں اور مزید سوالات کوجنم دیتی پنجاب میں ممکنہ خلفشار کی کئی صورتیں جن میں سب سے اہم نواز شریف کا ”مجھے کیوں نکالا“ والا سوال بھی ہے۔ شریف برادران کے دورئہ سعودی عرب کے دوران کسی این آر او کے بہت تذکرے ہوئے تھے۔ وہ نجانے کہاں گیا۔
ہفتے کی صبح نیند سے جاگا تو اپنے بستر پر رکھے اخبارات کے پلندے کو اٹھا کر ذہن میں آئے سوالات کے جوابات ڈھونڈتا رہا۔ تسلی اور تشفی نصیب نہ ہوئی۔ دلِ مضطرمطمئن نہ ہوپایا۔اسے سمجھانے کو لمبی ڈرائیو پر نکل گیا۔
شام سات بجے کے قریب گھر لوٹا تو ریموٹ اٹھایا۔ ہفتے کے سات دن 24گھنٹے ہمیں مسلسل ”باخبر“ رکھنے کے دعوے دار ٹی وی چینل مگر یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ ”شادی“ ہوئی یا نہیں۔ نام نہاد ”کرنٹ افیئرز“ والے Segments میں بھی سب سے نمایاں موضوع یہی تھا۔ تقریباََ 4گھنٹوں تک ریموٹ کے بٹن دباتے دباتے مجھے ایک بار بھی احساس نہ ہوپایا کہ امریکہ ہماری بربادی کے کیا منصوبے بنائے ہوئے ہے۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وہاں کی اسمبلی کا کیا ہوگا۔ طاہر القادری خالی خول بڑھک بازی میں مصروف رہیں گے یا ایک بار پھر کنٹینر پر سوار ہوکر اسلام آباد کو پریشان کردیں گے۔ پیر سیالوی کو ٹھنڈا کرنے کی کیا صورت نکالی جائے گی۔
تقریباََتمام ٹی وی چینلوں کا مسئلہ نمبر ون صرف ”شادی“ تھی۔ منیر نیازی کا ”مل بھی گیا تو پھر کیا ہوگا؟“ یاد آگیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کا بیان کردہ ”شہر سنگ دل بھی“ ۔ واجد علی پیا کی ٹھمریاں۔ ”شطرنج کے کھلاڑی“ اور ”ہنوز دلی دور است“ والی خودفریبی اور بغداد کے مناظرے۔ ربّ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اگرچہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔نہ ہو جس کو خیال….“

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے