کالم

بلوچستان کے پڑھے لکھے

جنوری 10, 2018 4 min

بلوچستان کے پڑھے لکھے

Reading Time: 4 minutes

بلوچستان میں ان دنوں پھیلے ہوئے ہیجان پر نگاہ رکھتے ہوئے اپنی طالب علمی کے دن یاد آگئے اور وہ مصرعہ بھی جو ”حادثے“ کو ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں“ کا شاخسانہ بتاتا ہے۔

1970کے انتخابات ہوئے تو اس صوبے سے دو جماعتیں ابھریں،نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام۔ یہ دونوں جماعتیں بنیادی طورپر ”نظریاتی“ تھیں۔ سیکولر اور مذہبی رویوں کی نمائندہ۔ ان اختلافات کے باوجود دونوں نے باہم مل کر ایک مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے باہمی اتحاد کی بدولت ہی ماضی میں”سرحد“ کہلاتے صوبے میں بھی جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود کو صوبائی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی نے وہاں کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تھا۔
پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کے تصور کی وجہ سے بنائے One Man – One Voteکے اصول کی مہربانی سے بنی بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت اگر اپنا وجود برقرار رکھ پاتی تو بقیہ ملک ہی نہیں کئی حوالوں سے پورے مشرقِ وسطیٰ کے لئے ایک روشن ماڈل تصور ہوتی۔ ایک ایسے سیاسی نظام کی نمائندہ جہاں ”شہری“ اپنے لسانی، نسلی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں خود کوبرابر کے شراکت دار تصور کرتے۔
Pluralismاور Inclusive Politicsوالی اصطلاحیں علم سیاست میں 90کی دہائی میں متعارف ہوئی تھیں۔ شام اور عراق جیسے ممالک میں جاری خانہ جنگی اور خلفشار ان دوتصورات پر عمل پیرا نہ ہونے کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ بلوچستان کے لوگوں نے 1970کے انتخابات کے ذریعے ان ہی دو اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا عزم دکھایا تھا۔ ہم مگر اسے ایک روشن اور عملی مثال کی صورت نہ دے پائے۔
داخلی حوالوں سے ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بقیہ پاکستان میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ہمارے حکمران طبقات کو یہ فکر لاحق تھی کہ بنگالیوں کے بعد بھارت اور سوویت یونین باہم مل کر بقیہ پاکستان کو بھی سندھی،بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی پشت پناہی سے ٹکڑوں میں تقسیم کردیں گے۔ سانپ کا ڈسا ذہن رسی سے بھی خوفزدہ ہوچکا تھا۔
ہمارے اس خوف سے بھرپور فائدہ اگرچہ بھارت اور سوویت یونین نے نہیں بلکہ شاہ ایران نے اٹھایا۔ اسے خوف لاحق ہوگیا کہ اگر پاکستان کے بلوچستان میں جمہوری نظام مستحکم ہوگیا تو صدیوں سے فارسی بولنے والی اشرافیہ کے محکوم بنائے ایرانی بلوچستان کے باسی ”گریٹربلوچستان“ کے خواب کو عملی حقیقت دینا چاہیں گے۔ ایرانی حکومت کے خدشات کو رفع کرنے کے لئے بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت کے گورنر غوث بخش بزنجو نے اقتدار سنبھالتے ہی تہران کا ایک طویل دورہ کیا۔ ان کی جانب سے پیش کردہ وضاحتوں کے باوجود شہنشاہ ایران مطمئن نہ ہوا۔ امریکی جریدے Timeکو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے رعونت سے بلکہ اعلان کردیا کہ پاکستانی بلوچستان میں ”علیحدگی“ کی کوئی تحریک چلی تو وہ براہِ راست فوجی مداخلت کے ذریعے اسے ناکام بنادے گا۔
بھٹو صاحب کی حکومت اس کی ”تڑی“ سے خوفزدہ ہوگئی۔ دریں اثناءبلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار عطاءاللہ مینگل نے چند ایسے اقدامات لئے جنہوں نے وہاں کئی دہائیوں سے آباد پنجابیوں کو فکر مند بنادیا۔1970کے انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے چند سردار بھی شہنشاہ ایران کی دھمکیوں اور پاکستان کی وفاقی حکومت کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اپنے ”لشکر“ بناکر صوبائی حکومت کے خلاف بغاوت پر تل گئے۔
تاریخ کا حیران کن المیہ یہ بھی ہے کہ اس موقعہ پر بلوچستان کے ایک قدآور سردار نواب اکبر بگتی نے ”پاکستان بچانے“ میں اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اسلام آباد میں موجود عراقی سفارت خانے سے اسلحے کی ایک بھاری کھیپ برآمد ہوئی۔ کئی امریکی اور یورپی لکھاریوں نے بہت تحقیق کے بعد اب یہ دریافت کرلیا ہے کہ صدام حسین کا عراق وہ اسلحہ پاکستانی بلوچستان کے راستے شاہ کے خلاف کرد گروہوں کو بھیجنا چاہ رہا تھا۔ ہم نے مگر اس اسلحے کو بلوچستان کے ”علیحدگی پسندوں“ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ بلوچستان کی حکومت برطرف کردی گئی۔ نواب اکبر بگتی کی قیادت میں گورنر راج نافذ ہوگیا۔
ایک منتخب حکومت کی برطرفی کے خلاف مسلح بغاوت پھوٹ پڑی۔ اس پر قابو پانے کے لئے تین سے زیادہ برسوں تک بلوچستان میں پاک فوج ہی امن وامان برقرار رکھنے کی حتمی ذمہ دار رہی۔جنرل ضیاءنے مارشل لگانے کے بعد مگر عام معافی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد کے واقعات حالیہ تاریخ ہیں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اہم بات اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ بلوچستان میں 1970کی دہائی کی ابتداءمیں اس کی پہلی جمہوری حکومت کی برطرفی کے بعد سے کوئی ایسا سیاسی نظام ہرگز وضع نہیں ہوپایا ہے جو Inclusiveسیاست کو فروغ دے۔ منتخب نمائندوں کو سیاسی جماعتوں کے نظم کا پابند رکھے۔ بلوچستان میں طاقت ور سرداروں کے ”حلقے“ ہیں۔ وہ ان حلقوں میں ریاستی سرپرستی کے ذریعے اپنی ذاتی اور خاندانی بادشاہت قائم کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اور یہ بادشاہت نام نہاد ”ترقیاتی فنڈز“ کی بنا پر قائم اور برقرار ہے۔
بلوچستان کے پڑھے لکھے مگر بے روزگار نوجوانوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ اس نظام میں اپنے لئے کوئی جگہ کسی صورت حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں ”ملک گیر“ ہونے کی دعوے دار تمام بڑی جماعتوں نے ان نوجوانوں کی مایوسی کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ان میں سے پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں تمام تر توجہ محض پنجاب تک محدود رکھے ہوئے ہیں جسے قومی اسمبلی میں اپنی آبادی کی بنیاد پر فیصلہ کن نشستیں مختص ہوئی ہیں۔ رقبے کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی قومی اسمبلی میں صرف 14نشستیں ہیں۔ یہ نشستیں بھی پشتون اور بلوچ قوم پرستوں اور مذہبی جماعتوں میں بٹ جاتی ہیں۔ اسی صوبے میں کوئی ایک بھی جماعت ایسی موجود نہیں ہے جو وہاں مقیم تمام لسانی گروہوں کی مجسم نمائندہ نظر آئے۔ اسلام آباد اور میڈیا میں بلوچستان کی محرومی کی دہائی مچانے والے افراد مگر ذاتی اور گروہی خواہشات کے اسیر ہوئے یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے بلوچستان اپنے حقوق کا حصول صرف ایسی کسی جماعت کے توسط ہی سے بحال کرسکتا ہے۔
حلقوں کی بنیاد پر ”سیاسی“ ہوئے بلوچستان کے ایم پی ایز کی اکثریت محض خود غرض وجوہات کی بنا پر ثنااللہ زہری کے خلاف بغاوت کو تیار ہوئی ہے۔ اہم بات مگر زہری کو بچانا یا ہٹانانہیں بلکہ بلوچستان میں ابھرتے خلفشار کا تدارک ہے اور مجھے فی الوقت ممکنہ خلفشار کے نتائج پر غور کرتا کوئی ایک شخص بھی نظر نہیں آرہا۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے