کالم

قابل نفرت اور مکروہ

جنوری 13, 2018 4 min

قابل نفرت اور مکروہ

Reading Time: 4 minutes

جن لوگوں نے صحافی اور صحافت کو اس شہر اور ملک بھر میں بے توقیر کیا ان کیلئے میرے پاس سوائے نفرت کے کچھ نہیں۔
یہ میڈیا ٹاﺅن کے پلاٹ اور ’پچاس کنال‘ کے پریس کلب کی بات کرکے ایسے احسان جتاتے ہیں جیسے ان کی ۔۔۔ جہیز میں لائی ہوں ۔ بعض ایسے’چوتیم سلفیٹ‘ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پلاٹ ملنے سے صحافیوں کے دن پھر گئے، بندہ بونا ہوجائے مگر سوچ کو اس قدر پست نہیں ہونا چاہیے ۔ دوہزار دو میں اسلام آباد میں صحافت کے آغاز سے لے کر آج تک پلاٹ لینے یا پیسے کمانے کے خیال کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی اسکیم میں پلاٹ لینے کیلئے کوئی فارم نہیں بھرا ۔
دوہزار چھ میں جب پنجاب کے تین شہروں میں جرنالسٹ ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن نے قانون سازی کے بعد ساڑھے تین ہزار صحافیوں کو پلاٹ دیے تو پریس کلب کا رکن ہونے کی وجہ سے مجھے بھی مل گیا ۔ وزیراعلی پنجاب پرویز الہی کے دور میں راولپنڈی/اسلام آباد کے تیرہ سو صحافی لوہی بھیر میں پلاٹ کے مالک بن گئے اور نام نہاد صحافی لیڈر پورے میڈیا ٹاﺅن کے ان داتا قرار پائے ۔ لیڈروں نے اپنی بیوی، بچوں، سالے اور سالیوں کو بھی ’صحافی‘ بناکر پلاٹ دلوا دیے اور کارکن صحافی نعرے مارتے رہے۔ پچاس صحافیوں کے نام فہرست سے خارج کیے گئے اور ان کو پلاٹ نہ ملے تو وہ عدالت چلے گئے۔ ’لیڈروں‘ نے پھر وزیراعلی سے رابطہ کیا اور یوں ایک سو پلاٹ مزید ان کے حصے میں آئے کہ جو محروم رہ گئے ان کے حوالے کیے جائیں ۔ لیڈروں نے یہ بھی آپس میں بانٹ لیے۔
آزادکشمیر کے ایک گاﺅں بنی منہاساں کے دس شناختی کارڈوں پر پلاٹ جاری کیے گئے۔ نوازشریف کے جوتے چاٹ اینکر نے جب دو ارب کے اثاثے بنالیے تو پھر ’صحافت‘ چھوڑ کر ن لیگ کے ٹکٹ پر آزاد کشمیر اسمبلی کا الیکشن لڑا، اور اب وزیر ہے۔ صحافیوں کو کرپٹ کرنے کے کام کا آغاز بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں فرحت اللہ بابر نے شروع کیا تھا جب اسلام آباد کے جی ایٹ سیکٹر میں میڈیا فاﺅنڈیشن کے نام سے بلڈنگ بنا کر پیپلزپارٹی کے جیالے صحافیوں کو فلیٹ دیے گئے، حامد میر بھی اس اسکیم سے مستفید ہونے والوں میں شامل تھے۔ اس کے بعد پرویزمشرف کے مارشل لاء میں نواز شریف کیلئے کام کرنے والے صحافی نواز رضا (جو سولہ سال تک راولپنڈی پریس کلب پر قابض رہے) کے خلاف بغاوت کرائی گئی اور پریس کلب پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا گیا۔ سولہ سال تک نواز رضا اس لیے الیکشن جیتتے رہے کہ انہوں نے ممبر شپ فہرست میں صحافیوں کے نام پر جو ووٹر درج کیے وہ مختلف پرنٹنگ پریسوں کے کارکن تھے صرف انتخاب والے دن آ کر ووٹ ڈالتے تھے۔
ق لیگ کے چودھری برادران اس صحافی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے جو ان سے لفافہ وصول کرنے سے انکار کر دے ۔ یوں پرویز مشرف کی چھتری تلے پرویزالہی نے پنجاب میں قانون سازی کرکے صحافیوں میں پلاٹ بانٹے ۔ اور جب پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت آئی تو راولپنڈی کا میڈیا ٹاﺅن مکمل طورپر ’لیڈروں‘ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کیلئے زمین جرنالسٹ ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن کے نام سے کوآپریٹو سوسائٹی کو منتقل کر دی گئی ۔ یوں اب اس سوسائٹی کی دو سو پچاس کروڑ کی کمرشل زمین ’لیڈروں‘ کے نام ہے۔ کھیل چونکہ اب لاکھوں کروڑوں سے نکل کر اربوں کا ہے اس لیے لینڈ مافیا کے کارندے بھی ان ’لیڈروں‘ کی پشت پر کھڑے ہیں۔ میڈیا ٹاﺅن میں ایک پراپرٹی ڈیلر نے اپنے گھر کے دونوں طرف ایسے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں جیسے وزیراعظم یا آرمی چیف کا گھر ہو۔
پرویزمشرف کے دور میں قابض گروپ نے جب پریس کلب کی ووٹرفہرست مرتب کی تو آج پندرہ برس میں یہ انتیس سو تک پہنچ چکی ہے، اس میں سی ڈی اے میں ملازمت کرنے والے بھی ہیں، بیٹری فروش بھی، پریس کلب کی کنٹین کے دیگ میں چمچے چلانے والے بھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ووٹر فہرست میں 380 ایسے افراد کے نام درج ہیں جن کی کیٹگری پر لکھاہے ’دیگر‘۔ اسی طرح ایک سو سے زائد ناموں کو فری لانس کے درجے میں رکھا ہے ۔ فری لانس ’صحافیوں‘ کے نام پڑھیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے کیونکہ سارا دن کلب میں اسنوکر کھیلنے والے ہی فری لانس ’صحافی‘ قرار پائے ہیں۔
ن لیگ کے حالیہ دور حکومت میں وفاقی اور پنجاب حکومت نے اس قبضہ گروپ کو خوب نوازا۔ سندھ کا کپی گروپ بھی پریس کلب کیلئے وہاں کی حکومت سے ایک کروڑ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ پریس کلب میں شہر کی پرائم لوکیشن پر قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہازی سائز کے بل بورڈز لگائے گئے ہیں جن پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشتہاربازی کے ذریعے ماہانہ لاکھوں روپے ڈکارے جاتے ہیں۔
جب تین ہزار کی ووٹرفہرست میں چمچے میں دیگ چلانے والے اور سارا دن خبر کے پیچھے بھاگنے والے دونوں پریس کلب کے رکن ہوں اور برابر کا ووٹ دیں تو تبدیلی نہیں آ سکتی ۔ قبضہ گروپ بندوق کے ذریعے آیا تھا، انہوں نے ووٹ لے کر نواز رضا کو نہیں ہٹایا تھا۔ ان کے پیچھے حکومتیں ہوتی ہیں جو ان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں ڈان اخبار کے صحافیوں نے الیکشن میں ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا کہ جعلی صحافی زیادہ ہیں تو ہمارے ووٹ سے فرق نہیں پڑے گا۔
وہ تمام شہری جو اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ صحافی اور صحافت آزاد ہیں ان کو خبر ہو کہ اسلام آباد میں ’صحافی لیڈر‘ کی اوقات ایک ارب تک پہنچ گئی ہے اس لیے وہ میر شکیل اور شعیب شیخ دونوں سے مال کھا کر اپنے بچوں کو ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں بھیجتا ہے ۔ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) میں امام مسجد بھرتی ہونے کیلئے آنے والا اس وقت پاکستان کے صحافیوں کا سب سے بڑا ’لیڈر‘ ہے اور ایک پرانا جماعتیا صحافی گاڈ فادر ہے تو پھر ڈان اخبار کے صحافیوں کی جانب سے ووٹنگ بائیکاٹ کا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا گیا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے