کالم

ضمنی انتخاب اور مقتدر حلقے

جنوری 13, 2018 4 min

ضمنی انتخاب اور مقتدر حلقے

Reading Time: 4 minutes

ضمنی انتخابات میں لوگ عموماً زیادہ متحرک نہیں ہوتے ۔ پنجاب اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے میں ویسے بھی اب تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اس کی ایک نشست پر چکوال میں ہوئے انتخاب میں ووٹروں کا ایسا جوش دیکھنے کو ملے گا۔ منگل کی شب نتائج کا اعلان ہونا شروع ہوا تو میں واقعتاً حیران ہو گیا۔ فوری طورپر یہ حقیقت بھرپور انداز میں یاد آگئی کہ اپنے صحافیانہ تجربات کی بناءپر گھر بیٹھے اعتماد کے ساتھ کوئی بات طے کر لینا احمقانہ بات ہے۔ ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“…. اور تاریخ خود کو ہر بار دہرایا نہیں کرتی۔
چکوال کے ضمنی انتخابات میں ووٹروں کی نسبتاً پرجوش شرکت کے بارے میں حیران ہونے کے باوجود میرے ماضی کے اسیر ذہن میں فوری خدشہ یہ بھی نمودار ہوا کہ اس کے نتائج نام نہاد مقتدر قوتوں کو آئندہ انتخابات بروقت منعقد کروانے کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1979ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر جو تحریک چلی اس کا نتیجہ ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی جنرل نے 90 دنوں میں نئے انتخابات کروانے کا عہد کیا ۔ عوام کی اکثریت نے اس کے وعدے پر اعتبارکیا اور عموماً یہ تصور بھی کرلیا گیا کہ ممکنہ انتخابات کے نتیجے میں اصغر خان مرحوم کسی نہ کسی صورت اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا۔
مارشل لاءکا نفاذ ہوتے ہی بھٹو کو مری کے ایک ریسٹ ہاﺅس میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ وہاں سے رہا ہوکر وہ لاڑکانہ چلے گئے اور غالباً اگست 1977ء کے آخری ہفتے میں لاہور آئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے پورا شہر ان کے استقبال کے لئے گھروں سے باہر نکل آیا ہے۔ ایئرپورٹ سے شیرپاﺅ پل تک لوگ ہی لوگ۔ انتہائی پُرجوش اجتماع جس نے مولانا شاہ احمد نورانی کو ایک کار میں دیکھ کر گھیرے میں لے لیا۔ چند بزرگوں کی مداخلت سے ان کی جاں خلاصی ہوئی یہ مگر طے ہوگیا کہ عوام کی اکثریت ابھی تک بھٹو کے ساتھ ہے۔
لاہور میں بھٹو کے ہوئے اس استقبال کی وجہ سے جنرل ضیاء احمد رضا قصوری کے والد کے قتل والا مقدمہ کھولنے پر مجبور ہوا۔ معزول کئے وزیراعظم کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کرنا پڑا۔ اس کے بعد ایک لمبی داستان۔ فی الوقت اہم بات یہ کہ بھٹو کی گرفتاری اور بالآخر1979ء میں پھانسی کے بعد ہمیں انتخابات دیکھنے کے لئے 1985 تک انتظار کرنا پڑا۔
چکوال کے ضمنی انتخاب میں ووٹروں کی مو¿ثر شرکت ہی نظر نہیں آئی، سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے نواز شریف کی جماعت کے نامزد امیدوار کو 75 ہزار سے زیادہ ووٹ بھی پڑے۔ پانامہ کا فیصلہ آجانے کے بعد سے ہمارے میڈیا کا ایک مو¿ثر حصہ یہ طے کر بیٹھا ہے کہ آنے والا کل عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا ہے۔ ان کے نامزد کردہ امیدوار کو لیکن 46 ہزار کے قریب ووٹ ملے۔ نواز شریف کے نامزد کردہ امیدوار سے 30 ہزار ووٹ کم۔
ہار جیت کا یہ فرق غیر معمولی ہی نہیں کئی حوالوں سے Trend Setters بھی ہے۔ یہ پیغام دیتا کہ آئندہ انتخابات میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کسی نہ کسی صورت واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت ضرور حاصل کر لے گی۔ وفاق میں چوتھی بار حکومت نہ بنا پائی تو بھی تخت لاہور پر اس کا قبضہ برقرار رہے گا۔
نام نہاد ”مقتدر حلقوں“ کے لئے جنہیں ”مجھے کیوں نکالا“ کی گردان کے ساتھ نواز شریف مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، تقریباً حقیقت دکھتا یہ امکان ہضم کرنا بہت مشکل ہو گا۔ شاید اب کینیڈا سے آئے ”شیخ السلام“ کے لئے کنٹینر پر چڑھنا ضروری ہو جائے۔ پیر سیالوی کو بھی مزید شدت کے ساتھ متحرک ہونا پڑے۔
یہ سوچنے کے بعد مگر خیال آیا کہ چکوال میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج آنے کے فوری بعد میں نے ایک بار پھر یہ حقیقت دریافت کی تھی کہ ماضی کے تجربات کی بنیاد پرخود کو عقل کل سمجھ کر اندازہ نہیں لگانا چاہئے۔ انتخابات کے بروقت نہ ہونے والے خدشے پر دوبارہ غور کیا تو خیال آیا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ 80ء کی دہائی سے وہ مسلسل اقتدار کے کھیل میں ایک طاقت ور کردار کی طرح موجود رہے ہیں۔ ریاستی امور کو خوب سمجھنے والا کوئی اور سیاست دان اب اس ملک میں موجود نہیں ہے۔
پاکستان کے ایک بہت ہی تجربہ کار سیاست دان ہوتے ہوئے بھی نواز شریف پارلیمان میں مضبوط اکثریت کے باوجود خود کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے سے بچا نہ پائے۔ پانامہ سے قبل اگست 2014ء میں اسلا م آباد کے دھرنے کے دوران وہ پیپلز پارٹی اور دیگر ”جمہوریت پسند“ قوتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ بھی بطور وزیراعظم قطعاً بے بس نظر آئے۔
آئندہ انتخابات بروقت ہو جائیں، ان کے نتیجے میں نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ پارلیمان میں اکثریت حاصل کر بھی لے تو نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتے۔ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کو مناسب اکثریت ملی تو شہباز شریف ہمارے آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔
اکثریت کمزور نظر آئی یا مخلوط حکومت بنانا پڑی تو شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا تاکہ شہباز صاحب تخت لاہور پر براجمان رہیں اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پر نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا راج برقرار رہے۔ نام نہاد ”مقتدر حلقوں“ کو اس بندوبست سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اگر کوئی ”سازش“ واقعتاً ہے تو واحد مقصد اس کا نواز شریف کو ریاستی فیصلہ سازی کے علم سے باہر رکھنا تھا۔ وہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ نواز شریف اب انتخاب میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہے۔ اب ان کا کردار محض ”پارس“ جیسا بنا دیا گیا ہے جو ”مجھے کیوں نکالا؟“ کی گردان کے ساتھ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے ووٹ بینک کو بچائے رکھے گا۔ اللہ اللہ خیر صلّیٰ

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے