کالم

’’جادوئی تاثیر والا ورد‘‘

جنوری 16, 2018 4 min

’’جادوئی تاثیر والا ورد‘‘

Reading Time: 4 minutes

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے ایک بار پھر دعویٰ فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کو سب سے ترقی یافتہ صوبہ بنا کر دکھائے گی اور یہ کہ پیپلز پارٹی کئی سال سے اس ضمن میں بھرپور اقدامات اٹھا بھی رہی ہے۔ سندھ کو ملک کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ بنانے کا اولین تقاضا مسابقت میں شرکت کا ہے۔ صوبوں میں مسابقت ایک ایسا تعمیری جذبہ ہے جو قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت صوبائی مسابقت میں کہاں کھڑی ہے اس کا اندازہ صرف ایک شعبے میں ہی ان کی محنت سے لگا لیجئے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں سب سے زیادہ محنت تعلیم کے شعبے میں کی ہے۔ یہاں تعلیم کے شعبے میں ایسی ایسی ’’سہولیات‘‘ مہیا ہیں کہ پنجاب کے لوگ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مثلا طالب علم یہاں درسگاہ میں قدم رکھے بغیر بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہ اسقدر حیران کن سہولت ہے کہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک اور یورپ جیسا جدید ترین بر اعظم بھی اپنے شہریوں کو فراہم کرنے میں ہمارے سندھ سے صدیوں پیچھے ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے سکول لیول پر صرف داخلہ درکار ہوتا ہے۔ تھوڑی سی ’’فیس‘‘ دے کر طالب علم گھر ہی بیٹھا رہے اور جب میٹرک امتحانات کا مرحلہ آجائے تو کچھ مزید فیس کا بند و بست کرکے کسی ایسے نوجوان سے اپنے پیپرز دلوا لے جس نے تعلیم کے لئے روایتی گھسا پٹا طریقہ اختیار کرکے باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ تمام امتحانی پیپرز وہ دے ڈالے گا اور جب نتیجہ آئے گا تو گھر بیٹھا ’’خصوصی طالب علم‘‘ میٹرک امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کر چکا ہوگا۔ ہاں ! یہ نہ بھولئے گا کہ ’’امتیازی پوزیشن‘‘ کا سارا دار و مدار اس بات پر ہے کہ امتحانی نظام کو فیس کتنی امتیازی دی گئی تھی۔ جتنی فیس امتیازی ہوگی اتنے ہی نمبر امتیازی ہوں گے۔ یہی سہولت کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی میسر ہے مگر وہاں کلاس میں شکل دکھانی لازم ہے۔ پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ باقاعدگی سے پڑھنا ضروری نہیں بس شکل دکھانے اور حاضری لگوانے کی ہی پابندی ہے جس کے لئے خصوصی طالب علم کو اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت تو نکالنا ہی ہوتا ہے۔
اس سہولت کی یہ شاندار خوبی تو دیکھئے کہ آپ کو کسی جعل ساز سے جعلی ڈگری لینے والے کی طرح ڈگری کی تصدیق نامی آفت ناگہانی سے دوچار ہوکر شرمندہ نہیں ہونا پڑتا۔ آپ کی تمام ڈگریاں ایک دم اصلی ہوتی ہیں اور کسی بھی تصدیقی مہم کے دوران ان کا ڈی این اے صوبے کے تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹی لیول پر بالکل محفوظ پایا جاتا ہے۔ پکڑ میں آپ تب ہی آئیں گے جب کوئی آپ کو سامنے بٹھا کر ٹیسٹ لے گا اور اس کی نوبت خیر سے آتی ہی نہیں۔ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر اس انقلابی سہولت کے حوالے سے کراچی کی اردو یونیورسٹی نے تو بڑا نام پیدا کیا ہے۔ بس حالیہ سالوں میں اس سے ایک غلطی یہ ہوگئی کہ اس سہولت کا دائرہ کار کچھ زیادہ ہی پھیلا دیا اور کوشش کی کہ پنجاب تک بھی یہ روشنی پھیل جائے۔ اب کون نہیں جانتا کہ پنجاب کے لوگوں کے ’’ترقی‘‘ نہ کرنے کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ یہ جدید سہولیات پر بالکل یقین نہیں رکھتے، انہی گھسے پٹے طریقوں سے چپکے رہتے ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں کہ تعلیم تو درسگاہ میں بیٹھ کر ہی حاصل کرنی ہے، خود بھی تھکنا ہے اور استاد کو بھی تھکانا ہے۔ اگر آپ پیپلز پارٹی کی رائج کردہ اس ’’خصوصی تعلیمی سکیم‘‘ سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو خوب تسلی رکھئے کہ یہ ڈگریاں صرف شو مارنے کے ہی کام نہیں آتیں بلکہ ان کے ذریعے آپ سرکاری نوکری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ اخباری رپورٹیں تو آپ کی نگاہ سے گزری ہی ہوں گی جن میں بتایا گیا تھا کہ سندھ میں بعض سرکاری اداروں کے چپڑاسی ترقی کے زینے طے کرتے پلک جھپکتے ’’اعلیٰ حکام‘‘ بن گئے۔ یہ کرشمہ صرف اسی سہولت سے استفادہ کرنے والے ہی دکھا پاتے ہیں، روایتی گھسے پٹے طریقہ تعلیم والے تو سالوں ترقی کے لئے رلتے ہی رہتے ہیں۔ تعلیم ہی کے شعبے میں اندرون سندھ ایک بڑی سہولت یہ میسر ہے کہ جن دیہات میں گدھوں کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے وہاں گدھے باندھنے کے لئے شہریوں کو سکول کی عمارتیں پیش کردی گئی ہیں۔ یہ سہولت کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں ابھی نہیں آئی کیونکہ یہاں گدھوں کی تعداد فی الحال طلبہ سے کم ہے۔
تعلیم ہی کے شعبے میں ایک زبردست سہولت اس صوبے میں یہ میسر ہے کہ آپ پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے عاری ہی کیوں نہ ہوں سرکاری ملازمت آپ کو ’’معلم‘‘ کی بھی مل سکتی ہے۔ اب اس بات پر پریشانی میں مبتلا ہوکر ہلکان نہ ہوئے گا کہ جب خود پڑھنا لکھنا نہیں آتا تو دوسروں کو کیسے پڑھایا لکھایا جائے گا ؟ آپ کو انہی طلبہ کا استاد بنایا جائے گا جنہیں ’’خصوصی تعلیمی سکیم‘‘ کے تحت پڑھنے کے لئے سکول آنا ہی نہیں، سو جس طرح انہیں پڑھنے کے لئے سکول نہیں آنا اسی طرح آپ کو بھی پڑھانے کے لئے سکول نہیں جانا۔ بس اتنی سی تکلیف آپ کو کرنی ہوگی کہ مقررہ تاریخ پر اپنی تنخواہ لینے آپ کو خود جانا ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی ابھی تنخواہ گھر پہنچانے کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس خصوسی تعلیمی سکیم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس سے وابستہ طلبہ خصوصی طلبہ جبکہ اساتذہ ’’خصوصی معلم‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ چونکہ خصوصی معلم ہونے کی وجہ سے آپ کو ڈیوٹی کی انجام دہی کے سلسلے میں سکول تو جانا نہیں سو یہ قیمتی وقت آپ کا محفوظ ہے۔ اس قیمتی وقت میں آپ چھولے یا شربت کا ٹھیلہ لگا سکتے ہیں، کسی وڈیرے کے گن مین بن سکتے ہیں، سیٹھ کے ڈرائیور بن سکتے ہیں اور اگر ان مشقتوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تو کنچے کھیل سکتے ہیں۔ ویسے میری مانیں تو اس فارغ وقت کا فائدہ اٹھا کر آپ پیپلز پارٹی سندھ کے رہنماء بھی بن سکتے ہیں۔ سندھ میں اپنی تقدیر بدلنے کا اس سے زیادہ تیر بہدف نسخہ اب تک ایجاد ہوا نہیں۔ آپ اسی سے اندازہ لگا لیجئے بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان نے بھی پیپلز پارٹی سندھ کے رہنماء بن کر اپنی تقدیر اس شان سے بدل کر دکھائی ہے کہ سندھ رینجرز بھی اس نو تحریر شدہ تقدیر کو مٹانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ آخری اور سب سے اہم گزارش آپ سے یہ ہے کہ خیر و برکت کا یہ نزول چونکہ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کے دم سے ہے اور اس میں بھٹو کے زندہ رہنے کا خاص عمل دخل ہے لھذا ان برکتوں کے تسلسل کے لئے آپ کو ’’بھٹو آج بھی زندہ ہے‘‘ کا ورد روز مرہ کا معمول بنانا ہوگا۔ یہ جادوئی تاثیر والا ورد چھوٹا تو سب کچھ چھوٹ جائے گا !

بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے