پاکستان

رائو انوار بھاگ گیا ؟

جنوری 20, 2018 2 min

رائو انوار بھاگ گیا ؟

Reading Time: 2 minutes

کراچی میں قبائلی نوجوان نقیب محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر سندھ پولیس سربراہ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی بھی تجویز دی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر  ایس پی انویسٹیگیشن ایسٹ محمد الطاف سرور ملک کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

راؤ انوار نے نوجوان نفیب اللہ محسود کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ رائو انوار ملک سے بھاگ گئے ہیں یا بھاگنے کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ ان کا فون مسلسل بند ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس معاملے میں ازخود نوٹس کے بعد رائو انوار کے ماضی میں کرائے گئے دسیوں پولیس مقابلوں کی قلعی بھی کھل سکتی ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے پر سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے سات دن میں رپورٹ طلب کی ہے۔

کراچی میں جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے سوشل میڈیا پر تبصروں میں لکھا ہے کہ رائو انوار کے پیچھے موجود طاقتیں ان کو بچا لیں گی کیونکہ مارے گئے افراد انہی طاقتوں نے رائو کے حوالے کیے تھے ۔

سوشل میڈیا پر نقیب محسود کے قتل پر شروع ہونے والی بحث  جاری ہے اور نقیب کے قریبی ساتھیوں نے کہا ہے کہ نقیب محسود کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا ۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا جس کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ محکمہِ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق نقیب اللہ محسود کے خلاف راؤ انوار کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔

نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے بتایا ہے کہ نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ میں شیر آغا ہوٹل سے دو اور تین جنوری کی شب سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے اٹھایا تھا، جس کے بارے میں انھیں چار روز کے بعد معلوم ہوا ۔ نقیب اللہ کے اہلخانہ کے مطابق مقتول کے تین بچے ہیں جن کی عمریں دو سے نو سال کے درمیان ہیں اور یہ بچے ان دنوں اپنے ننھیال ڈی آئی خان آئے ہوئے تھے۔

کراچی میں اس سے قبل بھی ایس پی ملیر راؤ انوار پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 146 افراد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے