کالم

رپورٹر، جج اور آئی ایس آئی

جنوری 24, 2018 10 min

رپورٹر، جج اور آئی ایس آئی

Reading Time: 10 minutes

سپریم کورٹ میں میرشکیل، میر جاوید اور صحافی احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ اور احمد نورانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے _  میر شکیل اور میر جاوید کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس میں جواب کا جائزہ لیا گیا تاہم احمد نورانی سے کہا گیا ہے کہ وہ جسٹس اعجاز افضل کو دوسری بار آئی ایس آئی کے جے آئی ٹی کنٹرول سنبھالنے کے سوال پر جواب حاصل کرنے کے لیے فون کرنے پر معذرت کی بجائے معافی مانگ لیں _

احمد نورانی کو معافی مانگنے کے لیے تحریری جواب جمع کرنے کے لیے مہلت دی گئی ہے تاہم احمد نورانی نے کہا ہے کہ ان کے خلاف نوٹس میں ایسا کوئی الزام ہی نہیں جس پر معافی مانگیں _

مقدمے کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی مگر میرشکیل، میر جاوید اور احمد نورانی ساڑھے نو بجے ہی عدالت عظمی پہنچ چکے تھے۔ انہی تین افراد کو توہین عدالت کے نوٹس تھے، میرشکیل اورمیرجاوید کو نوٹس جنگ میں سپریم کورٹ کی غلط شہ سرخی شائع ہونے پر جبکہ احمد نورانی کو آئی ایس آئی والی خبر پر جسٹس اعجازافضل سے دوسری بار ان کے فون پر رابطہ کرنے پر نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
جنگ گروپ کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں سب سے زیادہ دلچسپی بول نیوز کو تھی جس کے دس رپورٹرز، تین سیٹلائٹ وین اور بارہ کیمرے سپریم کورٹ کے اندر اور باہر موجود تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب میرشکیل کمرہ عدالت سے روش روم جانے کیلئے نکلے تو بول ٹی وی کے ایک رپورٹر اس کے پیچھے موبائل فون کا کیمرا لیے بھاگے۔ سماعت کے آغازپر ایک وکیل اٹھے اور کہا کہ انہوں نے میرشکیل کے خلاف درخواست دی تھی کیونکہ پچیس جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد باہر جاکر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میر شکیل نے ایک جج کے بارے میں کہا تھا کہ اس نے بیہودہ بات کی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ آپ کی درخواست آج سماعت کیلئے نہیں لگی، اگر عدالت کے باہر کوئی بات کرتاہے وہ الگ معاملہ ہے، اس کیس کے ساتھ نہیں سنا جا سکتا۔
اس کے بعد جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا توہین عدالت کے تینوں ملزمان موجود ہیں، وکیل ارشد نے نے اثبات میں جواب دیا۔ جسٹس کھوسہ نے پوچھا کہ مقدمے کا پس منظر بتائیے، ہمارے بنچ کے سامنے یہ مقدمہ پہلی بار لگا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ نے توہین عدالت کا نوٹس دیکھا ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہاکہ اخباری خبروں پر نوٹس لیا گیا تھا، نوٹس میں کہا گیا تھاکہ عدالت کے فیصلے کی خبر درست شائع نہیں کی گئی تھی جبکہ رپورٹر احمد نورانی کو نوٹس جج کو دوسری بار فون کال کرنے پر دیا گیا ۔ نوٹس دس جولائی دوہزار سترہ کو جاری کیا گیا تھا، خبر جے آئی ٹی کی ویڈیو ریکارڈنگ اور حسین نواز تصویر لیک کے مقدمے کی عدالتی کارروائی کی تھی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس مقدمے کے دوران عدالت نے طلال چودھری، آصف کرمانی اور سعد رفیق کی جے آئی ٹی کے خلاف تقاریر کا ٹرانسکرپٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ ہم نے جمع کرا دی ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ اس وقت عدالت نے حکم دیا کہ جے آئی ٹی اور پانامہ کیس مکمل ہونے پر اس کو دیکھا جائے گا، ہوسکتا ہے کہ اب یہی وہ وقت ہے کیونکہ پانامہ مقدمہ ختم ہو چکا ہے۔ تاہم یہ الگ معاملہ ہے، الگ سے دیکھیں گے ۔ پہلے وہ خبر پڑھ لیں جس پر نوٹس لیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے ویڈیو ریکارڈنگ اور حسین نواز تصورلیک کی جنگ کی خبر پڑھی۔ (اس دوران میرشکیل عدالت سے باہر جانے کیلئے غلط دروازے کا ہینڈل گھمانے لگے تو میں نے توجہ دلائی کہ باہر نکلنے کا راستہ دوسری جانب ہے)۔ جسٹس آصف کھوسہ نے خبر سننے کے بعد کہاکہ اس میں غلط کیا ہے جس پر نوٹس لیا گیا؟ بظاہر صرف سرخی میں غلطی ہے۔ اب دی نیوز کی خبر پڑھ لیں۔ اٹارنی جنرل نے ہیڈلائن پڑھی کہ ’سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی کے معاملے دیکھنے کی ہدایات جاری کیں‘۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ ذرا سیریس معاملہ لگ رہا ہے، اس خبر کے ساتھ رپورٹر کانام بھی لکھا ہوا ہے، رپورٹر نے لکھا ہے کہ اس کو جے آئی ٹی کے سورس نے بتایا۔ جنگ گروپ کے وکیل نے کہاکہ عدالت نے ہمیں جو نوٹس بھیجا ہے اس میں اس خبر کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ اس طرف بھی آتے ہیں پہلے خبر پوری پڑھ لیں۔ بظاہر اس خبر میں قابل اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے یہ سب کرنے کی اجازت دی، کیا سپریم کورٹ کا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے کہ آئی ایس آئی کو حکم دیا؟ رپورٹر سے پوچھ لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس سے سورس پوچھ لیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ہم سورس نہیں پوچھتے، خبر کا مواد یا ثبوت پوچھ لیتے ہیں۔ اسی دوران جسٹس دوست محمد نے کہاکہ رپورٹر کو جاری کیے گئے نوٹس میں جج سے فون رابطہ کا کہاگیا ہے۔ ( جسٹس آصف کھوسہ نے فورا ساتھی ججوں سے مشاورت شروع کر دی، جسٹس دوست محمد کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے)۔
جسٹس کھوسہ نے کہاکہ توہین عدالت کا سامنے کرنے والوں کا جواب آنے کے بعد یہ ابتدائی سماعت ہے، اگر مطمئن نہ ہوئے تو کارروائی آگے بڑھائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کی ہدایت پر میرشکیل اور میر جاوید کا جواب پڑھا اور بتایا کہ دونوں آپس میں بھائی ہیں، ایک اخبار کا چیف ایڈیٹر جب کہ دوسرا پرنٹر و پبلشر ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے جواب سننے کے دوران کہاکہ اس میں تسلیم کیا گیاہے کہ رپورٹر نے جج سے فون پر رابطہ کیا اور کہاکہ خبر کی تصدیق کیلئے یہ ایک مخلصانہ کوشش تھی۔ بظاہر صرف جنگ اخبا رکی خبر کی شہ سرخی میں غلطی ہوئی ہے، اکیس جون کے دی نیوز کی خبر نوٹس کاحصہ نہیں ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ میں اس بنچ کا حصہ نہیں تھا لیکن اگلے دن کے تمام اخبارات پڑھے تھے سب میں خبر اسی طرح شائع ہوئی تھی، رپورٹر ز سے معمولی غلطی ہوئی اور درخواست کو مسترد سمجھے۔ اکیس جون کی خبر میں تو رپورٹر کو جے آئی ٹی سے ایک کلیو ملا، اس نے رجسٹرار سے رابطہ کیا تاکہ تصدیق کرسکے، ناکامی پر جج سے رابطہ کرلیا۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ خبر میں مسترد کا لفظ شاید غلط تھامگر سپریم کورٹ نے اس دن حسین نواز کی درخواست مانی بھی نہیں تھی، رپورٹرز بہت ہارڈ ورکنگ ہیں، محنت کرتے ہیں، زیادہ تر رپورٹنگ درست ہی ہوتی ہے مگر انگریزی زبان سمجھنے میں مسئلہ ہوتاہے، اس لیے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہوگی، لینگویج کی پرابلم ہے، کچھ اور بھی پرابلمز ہیں لینگویج کی جو اس موقع پر کہنا نہیں چاہتا (معلوم نہیں ان کا اشارہ چیف جسٹس کی دھوتی/اسکرٹ والی تقریر کی طرف تھا یا کچھ اور)۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ رپورٹرز بہت محنتی ہیں، غلطی ہو جاتی ہے مگر بدنیتی نہیں ہونا چاہیے، دوسرے ملکوں میں کورٹ رپورٹنگ کے کورس ہوتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ ہمارے یہاں کبھی کبھار مائیک بولنے والے کے منہ پر مارتے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے احمد نورانی کے جواب پڑھے جانے کے دوران کہاکہ رجسٹرار نے ان کو کہاکہ مجھ سے نہ پوچھیں، تو کیا صحافی جج کے کک سے پوچھتا، یا جج کے نائب قاصد یا اس کے ڈرائیور سے یہ سوال کرتا؟۔جواب کے مطابق رپورٹر نے کال کرکے ممکنہ طورپر ملنے کی درخواست کی تھی۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ رپورٹر نے جواب میں کچھ اخباری خبریں بھی اپنے دفاع میں منسلک کی ہیں، یہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس میں سابق چیف جسٹس کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ جو بھی ہے پڑھتے ہیں، حوالے تو کافی دیے گئے ہیں، اگر جذبات سے عاری ہوکر دیکھا جائے تو صحافی اور جج صاحب کے درمیان بات چیت بڑے تحمل سے ہوئی ہے، فون کال پر دونوں اطراف سے یہی نظر آ رہا ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا ایک صحافی جج سے رابطہ کرسکتاہے یا نہیں، وضاحت اس وقت مطلوب ہوتی ہے جب جج صاحبان کی ذات سے متعلق کوئی بات ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ صرف جج کے گھر نہیں ، کسی بھی جگہ کوئی بھی شخص جج سے رابطہ نہیں کرسکتا۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ رپورٹر کا کام ہی خبر ہے تو اس نے پوچھنا ہوتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ رپورٹر نے جواب میں لکھا ہے کہ صحافی پہلے بھی برسوں تک ججوں سے رابطے کرتے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ انصارعباسی کی خبر ساتھ لگائی گئی ہے جس میں سابق چیف جسٹس ڈوگر سے رابطہ کا ذکر ہے جو ان کی بیٹی کے میڈیکل کالج میں داخلہ کے حوالے سے تھا۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ رپورٹر کہتاہے کہ چونکہ میں اسی عدالت کا عادی ہوں تو اس لیے رابطہ کیا، رپورٹر یہ کہنا نہیں چاہتا بلکہ اس نے اپنے جواب میں یہی کہاہے۔
اس وقت احمد نورانی اپنی نشست سے اٹھے اور اٹارنی جنرل اور وکیل کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ اٹارنی جنرل نے احمد نورانی کا پورا جواب پڑھا جس کے آخری میں لکھا ہے کہ باوجود اس کے کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں اگر فون کال پر جج صاحب کو تکلیف ہوئی ہے تو افسوس ہے، مجھے اس عدالت کا احترام ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ریگرٹ بہت آسان لفظ ہے۔ احمد نورانی نے کہاکہ جس طر ح آپ نے کہاکہ اس وقت ڈوگر کورٹ تھی تو ۔۔ جسٹس آصف کھوسہ نے احمد نورانی کا جملہ کاٹتے ہوئے کہاکہ میں نے ڈوگر کورٹ نہیں کہا، آپ چھوڑ دیں، اپنے وکیل کے ذریعے بات کرلیں، وہ موجود ہیں۔ ان کے ذریعے جواب دیدیں، میرے وہ الفاظ نہیں تھے جو آپ نے ابھی مجھ سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ احمد نورانی نے کہا کہ میری انڈراسٹینڈنگ یہ تھی کہ جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی عدلیہ بحالی کے بعد میڈیا سے بات ۔۔۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ اگر ماضی میں ایک چیز تھی تو وہ ہوگئی، اب اگر یہ غلطی ہوگئی ہے تو قانون میں ریگرٹ (افسوس) کا لفظ نہیں ہے۔ آپ نے جو بھی کہناہے، وکیل سے مشور ہ کرلیں، لکھ کر دیدیں۔
جسٹس کھوسہ نے کہاکہ اب میڈیا کی اہمیت عالمی سطح پر مانی جاتی ہے، یہ ایک ستون ہے۔ (اسی دوران میر شکیل اپنی کرسی سے اٹھ کر احمد نورانی کے پاس گئے اور ان کو کان میں کچھ کہا، اس کے ساتھ ہاتھ سے دبنے کا اشارہ کرتے بھی دیکھے گئے)۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ قانون میں معافی کا لفظ ہے۔ احمد نورانی نے کہاکہ میرے دل میں سپریم کورٹ کی بہت عزت ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ جس طرح میرے برادر جج نے کہاکہ میڈیا پلر ہے، تو یہ وہ ستون ہے جس کا ڈھانچہ ابھی پلستر ، رنگ وروغن نہیں ہوا۔عدالت میں موجود لوگو ں کے چہروں پرمسکراہٹ پھیل گئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ توہین عدالت قانون کا مقصد کسی کو سزادینا ہرگز نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ معاشرے میں عدلیہ کا احترام کیا جائے۔ (اسی دوران جیونیوز کے سپریم کورٹ کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی بھی احمد نورانی کے پاس گئے اور ان کے کان میں کچھ بولے۔ تاہم احمد نورانی مطمئن نظر نہ ہوئے اور اپنی جگہ کھڑے رہے)۔
احمد نورانی باربار عدالت سے ایک جملہ کہنے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن جسٹس کھوسہ نے کہا کہ خود سے کچھ نہ بولیں، مزید کوئی بات ہوجائے گی، وکیل کے ذریعے مخاطب ہوں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے سوچنے اور معافی نامہ جمع کرانے کیلئے آدھا گھنٹے کی مہلت دیدی۔ سب لوگ عدالت سے باہر نکلے اور جنگ گروپ کے مالک سمیت ہرایک احمد نورانی سے بات کرنے لگا لیکن وہ اپنی بات پر قائم رہے کہ معافی کس بات کی مانگی جائے؟۔
وقفے کے بعد مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس کھوسہ نے پوچھاکہ کیا نیا جواب آ گیا ہے؟۔ وکیل نے پیش کیا تو پڑھنے کے بعد کہاکہ احمد نورانی صاحب نے معافی کا لفظ اب کے بھی نہیں لکھا۔قانو ن میں یہی لفظ ہے اس لیے ہم نے کہاتھا۔ احمد نورانی نے کہا کہ مجھے معذرت کرنے میں کوئی شرم، عار یا جھجھک نہیں مگر معافی کا لفظ لکھنے سے یہ سمجھا جائے گا کہ میں نے دانستہ ایسا کام کیا، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معافی مانگنے سے عدالت پر بھی بات آئے گی کہ میری کوئی بدنیتی تھی۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم نے تو سب کیلئے سہولت کاراستہ تلاش کیا، آپ کا حق ہے اگر آپ یہ نہیں لکھنا چاہتے۔ احمد نورانی نے کہاکہ مجھے صرف یہ مسئلہ ہے کہ اس سے تاثر غلط جائے گا۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ہم آپ کو موقع دینا چاہتے ہیں، اسی میں بہتری ہے، بے عزتی کرنے سے معاملہ خراب ہوتاہے، عزت دینے میں بڑائی ہے، معافی مانگنے سے عزت میں کمی نہیں ہوتی۔جسٹس دوست محمد نے کہاکہ یہ قانو ن کامعاملہ ہے، قانون میں لفظ ہی معافی کا لکھاہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا معافی مانگنے سے آپ سے کوئی ناراض ہوجائے گا؟۔ احمد نورانی نے کہا کہ ایسی بات نہیں ، میں نے کوئی ایسی چیز نہیں کی جس سے ۔۔۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ ہماری طرف سے بھی کچھ کمزوریاں ہیں جو وقت کے ساتھ ٹھیک ہورہی ہیں، ججوں کے گھروں میں ٹیلی فون آپریٹر نہیں ہوتے، پرائیویسی ہوتی ہے۔
کئی بار معافی کیلئے مختلف طریقوں سے کہنے کے بعد جسٹس کھوسہ نے کہاکہ یہ معافی نامے والا جواب قابل قبول نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی بولے کہ اگر معاملہ آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو وکیل سے مشورہ کرکے بتادیں، اس کے علاوہ پھر چھ جولائی کی آئی ایس آئی کو اختیار دینے والی خبر بھی ہے (یہ ایک کھلی دھمکی تھی کہ معافی مانگ لو، نہیں تو پرانے حساب باقی ہیں)۔ احمد نورانی نے کہاکہ میں نے سوری کیا ہے، افسوس کا اظہار بھی اپنے جواب میں کرچکاہوں، اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پربھی چھوڑ دیاہے۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ اگر کوئی تذبذب ہے تو بتادیں، قانون میں معافی کا لفظ ہے، اگر کیس ہی چلانا چاہتے ہیں توپھر ہم تو روز یہی کام کرتے ہیں، اگر معافی مانگنے کی بجائے کیس چلانا چاہیںگے تو پھر جو اصل چیز رہ گئی ہے اس کو بھی دیکھیں گے،چھ جولائی کی خبر میں آپ نے عدالت پر اتنا بڑا الزام لگادیاہے۔ احمد نورانی نے کہاکہ وہ چھ ماہ پرانی خبر ہے سر، اس میں الزام تو کوئی نہیں۔
اس کے بعد عدالت نے حکم نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ’ مدعاعلیہ احمد نورانی نے تذبذب کے بعد واضح کیا کہ وہ نوٹس پر عدالت میں معافی نہیں جمع کرائیں گے کیونکہ اس سے سمجھا جائے گا کہ میں نے بدنیتی سے یہ کام کیا۔ سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ چھ جولائی دوہزار سترہ کو دی نیوز میں ’سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی کی نگرانی سنبھالنے کی ہدایت کی‘کے عنوان سے خبر شائع کی گئی اور اس میں لکھاگیا کہ جے آئی ٹی کے انتظامی امور کی نگرانی آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہاتھ میں لی، جب عدالت نے احمد نورانی سے پوچھاکہ عدالت نے ایسا حکم نامہ کب جاری کیا اس کا ثبوت دیں تو انہوں نے جواب نہ دیا، ہم بظاہر یہ محسوس کرتے ہیں کہ مذکورہ خبر اس عدالت کے توہین کے زمرے میں آتی ہے اوراس پر الگ سے پرانے نوٹس کے ساتھ اضافی شوکاز نوٹس جاری کیا جاتاہے، یہ شوکاز نوٹس چھ جولائی دوہزار سترہ کی خبر پر جاری کیا جاتاہے، تینوں مدعا علیہان اس کا دو ہفتوں میں جواب جمع کرائیں‘۔
عدالت نے جیسے یہ حکم نامہ اپنے اسٹینو کو ڈکٹیٹ کرایا، تو احمد نورانی نے ججوں کے اٹھنے سے پہلے ہی کہا کہ جناب، آپ نے مجھ سے ایسی کوئی بات پوچھی ہی نہیں جو حکم نامے میں شامل کرلی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ چلیں، ابھی پوچھ لیتے ہیں، آپ بتادیں، ابھی ہم نے حکم نامہ ٹائپ کرایا ہے اور نہ اس پر دستخط کیے ہیں۔ احمد نورانی نے کہاکہ جناب، یہ جملہ میرے خلاف جائے گا، کیونکہ آپ نے مجھ سے ایسی بات پوچھی نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم تو آپ کا فائدہ کرانا چاہتے تھے، آپ نے خود ہی نہیں مانا، ٹھیک ہے ہم اس فقرے کو تبدیل کرکے سافٹ کرلیتے ہیں۔ نوٹس جاری کر دیا ہے آپ جواب دیدیں۔ احمد نورانی نے کہاکہ میری خبر میں جو کچھ بھی لکھا ہے اس پر اپنا جواب دوں گا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے