کالم

خاموشی اختیار کرلینا چاہیے

جنوری 26, 2018 4 min

خاموشی اختیار کرلینا چاہیے

Reading Time: 4 minutes

اس ہفتے کا آغاز ہوتے ہی میں نے قصور میں ہوئی جنسی درندگی اور راﺅ انوار کی کارستانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کالم میں کابل کے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل پر ہوئے حملے کا تذکرہ ضروری سمجھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ اس واقعہ کو ایک دوسرے پر روایتی الزام تراشی کے لئے استعمال کرنے کے بجائے امریکہ اور افغانستان کی حکومتیں پاکستان کے ساتھ کھلے ذہن سے رابطہ کریں۔ تینوں ممالک کے نمائندہ تفتیش کار یکسو ہوکر یہ طے کرنے کی کوشش کریں کہ سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے محفوظ ترین تصور ہوئے ایک عالمی شہرت یافتہ ہوٹل میں دہشت گرد کیسے گھس آئے۔ ان کے پاس آتشیں اسلحہ کہاں سے آیا اور ساتھ ہی یہ صلاحیت بھی کہ وہ ہفتے کی شب نوبجے وہاں نمودار ہوکر اتوار کی صبح تک اس ہوٹل میں مقیم غیر ملکیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔

افغان حکومت نے مگر یہ واردات ختم ہوتے ہی پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ ہمارے ہاں سے فقط وضاحتی اور مذمتی بیان جاری ہوا۔ کسی اعلیٰ سطحی رابطے کی اطلاع نہیں ملی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ترجمان نے پاکستان کو براہِ راست ذمہ دار تو نہیں ٹھہرایا مگر پاکستان سے ایک بار پھر نام نہاد حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے ڈومور کا تقاضہ کر دیا۔ کابل کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ”غیر ملکیوں“ کی بات بھی ہوئی ہے۔ د ودن گزرجانے کے بعد مگر منگل کی صبح یہ دعویٰ ہوا کہ مارے گئے غیر ملکیوں میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔ میں سمجھ گیا کہ اس بیان کے بعد ”بدلہ“ لیتی کوئی کارروائی ضرور دکھائی جائے گی اور بدھ کے روز ہماری کرم ایجنسی میں ڈرون حملے ہو گئے۔ مقامی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ تباہ ہوئے مکان میں طالبان کا ایک سرکردہ رہ نما اپنے دو ساتھیوں سمیت رہائش پذیر تھا۔
ہماری وزارتِ خارجہ نے مذکورہ ڈرون حملے کے بعد ایک اور روایتی بیان جاری کیا۔ اس بیان میں امریکہ کو ایک بار پھر یاد دلایا گیا کہ اس کی جانب سے پاک سرزمین پر دہشت گردی کے جواز پرمبنی یک طرفہ حملے دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابیاں پیدا کریں گے۔ بہتر یہی ہے کہ اگر امریکہ کے پاس پاکستان میں کسی دہشت گرد کی موجودگی کی اطلاع ہے تو ہماری حکومت کو اس کے بارے میں مطلع کیا جائے تاکہ ہم از خود اس کے خلاف کوئی ایکشن لے پائیں۔
کرم ایجنسی میں ہوئے تازہ ترین ڈرون حملے کے بارے میں جاری ہوئے اس بیان میں ہرگز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گماں ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ سال اگست میں جس ”نئی“ افغان پالیسی کا اعلان ہوا اس کے بعد سے امریکی اور پاکستانی حکام کے مابین ہوئی کئی ظاہر اور بہت سی خفیہ ملاقاتیں اور روابط دونوں ممالک کے مابین اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں ممالک ہرگز کوئی ایسا طریقہ بھی نہیں ڈھونڈ پائے ہیں جو اس خطے میں موجود دہشت گردوں سے کسی Win-Win حکمت عملی کے ساتھ نبردآزما ہوسکے۔ امریکہ کو اس مسئلے کا واحد حل فی الوقت ڈرون طیارے کے ذریعے ہلاکتیں ہی نظر آرہا ہے۔
ڈرون حملوں کو ہم 2007سے اپنی ”خود مختاری پر حملہ“ ٹھہراتے چلے جا رہے ہیں۔ Wikileaksکے ذریعے اگرچہ ہم سب جان چکے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور سے امریکی ڈرون طیاروں کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کے لئے Corridors مختص کئے گئے ہیں۔ امریکی حکومت کو مگر یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ پاکستانی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ایسے حملوں کی حکومت کی جانب سے مذمت اس کی سیاسی ضرورت ہے۔ امریکہ نے اس مذمت کا لہذا کبھی برا نہیں منایا۔
عمران خان صاحب 2011 میں جب اس ملک کو انقلابی طورپر تبدیل کرنے کے سفر پر نکلے تو ڈرون حملوں کو روکنا بھی انہوں نے اپنا ہدف ٹھہرایا۔ ایک بار انہیں روکنے کے لئے جنوبی وزیرستان جانے کی جرات بھی دکھائی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے جماعتِ اسلامی کے صالحین کے ساتھ مل کر پشاور کے راستے افغانستان میں مقیم امریکی فوجیوں کے لئے جاتی رسد کے ٹرکوں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے بعد مگر وہ 2013 کے انتخابات جیتنے کی ضد میں مبتلا ہو گئے۔ انتخابات مکمل ہوجانے کے بعدان میں ہوئی مبینہ دھاندلی کے خلاف شور وغوغا اور دھرنے وغیرہ۔ ڈرون حملوں کی بابت عمران خان اب اکثر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
شاید ہماری حکومت کو بھی ایسی خاموشی اختیار کرلینا چاہیے۔ کرم ایجنسی میں تازہ ہوئے ڈرون حملے کے بارے میں وزارتِ خارجہ کا بیان ”اب کے مار“ جیسی بے بسی کا اظہار ہے۔ ”عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت“ کی جانب سے یہ اظہار مجھ ایسے پاکستانیوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ ہمیں بارہا شرمندہ کرنے کے بجائے سیاسی اور عسکری قیادت کو باہم مل کر چند حقیقتیں واضح الفاظ میں بیان کردینا ہوں گی۔
دفاعی امور کے حوالے سے میں قطعی اَن پڑھ ہوں۔ مجھے خبر نہیں کہ پاکستان کے پاس امریکی ڈرون طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ صلاحیت ہو بھی تو ڈرون کو امریکہ اپنی نام نہاد وار آن ٹیرر کا اہم ترین ہتھیار سمجھتا ہے۔ اس ہتھیار کا مار گرائے جانا ٹرمپ انتظامیہ اپنے ملک کے خلاف اعلانِ جنگ بھی شمار کرسکتی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کرم ایجنسی میں چھپے کسی طالب کے تحفظ کے لئے امریکہ جیسی قوت سے ٹکر کیوں لے ۔ جی کڑا کرکے ہم یہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے کہ امریکہ اپنے ڈرون طیارے کے ذریعے واقعتا کسی دہشت گرد کو نشانہ بناتا ہے تو ہم اس پر معترض نہیں ہوں گے۔ زیادہ بہتر البتہ یہی ہے کہ ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک ہوئے کسی دہشت گرد کا نام لے کر معاملے کو Own کیا جائے۔ ہمیں بتایا جائے کہ مارا گیا شخص کون تھا۔ اس کا مارے جانا کیوں ضروری تھا۔ امریکہ کی جانب سے ہوئی یک طرفہ کارروائیوں کے بارے میں محض تاسف کا اظہار ایک مناسب حکمت عملی نہیں۔ کڑوی گولی نگلنا اگر ضروری ہے تو اسے خاموشی سے ہضم کر لیں۔

بشکریہ نوائے وقت

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے