پاکستان

شاہ رخ جتوئی سپریم کورٹ میں

جنوری 31, 2018 4 min

شاہ رخ جتوئی سپریم کورٹ میں

Reading Time: 4 minutes

کراچی کے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی، سجاد تالپور اور سراج تالپور سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ چوتھے ملزم غلام مرتضی لاشاری کے جیل میں ہونے پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ایسے مقدمات میں عام طور پر ملازم ہی جیل جاتے ہیں، بڑے چھوٹ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو وکیل فیصل صدیقی نے بتایاکہ سول سوسائٹی کے 421 افراد نے درخواست دائر کی ہے، ان کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگوں کو نہیں سن سکتے، ایک ہی وکیل کی نمائندگی کافی ہوگی۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق اس کے بعد عدالت نے تمام ملزمان کو روسٹرم پر آنے کیلئے کہاتاکہ سب کی حاضری لگائی جاسکے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کل چار ملزمان ہیں، تین یہاں موجود ہیں جبکہ چوتھا ملزم غلام مرتضی لاشاری جیل میں ہے، اس کی بھی ضمانت ہو چکی ہے مگر مچلکے جمع کرانے کا بندوبست نہیں کیا جاسکا۔ ملزمان کی جانب سے لطیف کھوسہ اور فاروق نائیک ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چوتھے ملزم کے وکیل بابر اعوان کو بھی بلا لیں۔ عدالت کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ چوتھا ملزم مرتضی لاشاری دیگر ملزمان کا ملازم اور ابھی تک جیل میں ہے اس لیے پیش نہیں ہو سکا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جیلوں میں عام طور پر ملازم ہی جاتے ہیں، بڑوں میں سے کوئی نہیں جاتا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہم ہائیکورٹ کے فیصلہ دینے کے اختیار میں مداخلت کرسکتے ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس میں دو ایشوز ہیں. پہلا یہ ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ دہشت گردی کا معاملہ اس مقدمے میں طے ہو چکا ہے،اب سوال ہمارے دائرہ اختیار سماعت کا ہے ۔
اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر قانونی ہو تو سپریم کورٹ اسے ری وزٹ کرسکتی ہے، چیف جسٹس
عدالت کے پاس کسی فیصلے کو غیرقانونی کہنے کا اختیار ہے، وکیل
دہشت گردی کامعاملہ عدالت اپنے فیصلوں میں طے کرچکی ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ
سپریم کورٹ نے خود یہ کیس اے ٹی سی میں چلانے کاحکم دیا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ
سپریم کورٹ نے قراردیا تھاکہ چالان اے ٹی سی عدالت میں داخل کیے جائیں، جسٹس آصف کھوسہ
عدالت قراردے چکی ہے دہشت گردی کامقدمہ ہے، جسٹس کھوسہ
اے ٹی سی نے بھی اس کیس کو دہشت گردی کامقدمہ قرار دیا،جسٹس کھوسہ
ہائی کورٹ کے دوججز الگ مقدمے میں کیسے کہہ سکتے ہیں یہ دہشت گردی کامقدمہ نہیں،جسٹس کھوسہ
کیاہائی کورٹ اپنے پہلے فیصلے کو دوسرے مقدمے میں بدل سکتی ہے، جسٹس کھوسہ
سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کا از خود نوٹس لیا. جسٹس کھوسہ
مقدمے کا چالان پیش ہوا. جسٹس آصف کھوسہ
ہائیکورٹ نے کہ دیا کہ شاہ زیب قتل کیس دہشتگردی کا نہیں ہے. جسٹس کھوسہ
ہائیکورٹ کے دو ججز بے فیصلہ دیا پھر دو ججز بے الگ رائے فی. جسٹس کھوسہ
اصل سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس کھوسہ
طے شدہ معاملے پر نظرثانی کیسے کریں؟ جسٹس کھوسہ
24 دسمبر 2012 کا وقوعہ ہے. وکیل سول سوسائٹی
مرکزی ملزم وقوعہ کے بعد ملک سے فرار ہوگیا،وکیل سول سوسائٹی
24 دسمبر2012 کوکراچی میں یہ واقعہ پیش آیا، وکیل فیصل صدیقی
22 فروری 2013 کو اے ٹی سی کورٹ نے چالان داخل کرنے کاحکم دیا ،وکیل فیصل صدیقی
سپریم کورٹ نے 7 روزمیں ٹرائل مکمل کرنے کاحکم دیا، وکیل فیصل صدیقی
عدالتی نےحکم دیا اے ٹی سی کسی آبزرویشن سے متاثرہوئے بغیر کیس سنے، جسٹس کھوسہ
عدالت نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ عملدرآمد رپورٹ نگران جج کو بھیجے ،فیصل صدیقی
عدالت نے نگران جج کو رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی جمع کروانے کاحکم بھی دیا، وکیل فیصل صدیقی
مجھے ججز پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں جانا ہے وکیل شاہ رخ جتوئی فاروق ایچ نائیک
2 بجے پارلیمانی کمیٹی میٹنگ ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک
آپ چلے جائیں پارلیمانی کمیٹی کومیراسلام دیں، چیف جسٹس
پارلیمانی کمیٹی کو پیغام دیں جلد ان سے ملاقات ہوگی، چیف جسٹس
ہمیں چاروں ملزمان دکھائیں, چیف جسٹس
ملزمان کو اپنی نشستوں پر کھڑا کریں. چیف جسٹس
ایک ملزم غلام مرتضیٰ جیل میں ہے. وکیل سول سوسائٹی
ملزم غلام مرتضیٰ ملازم ہے. وکیل سول سوسائٹی
جیلوں میں انکے ملازم ہی جاتے ہیں, امیر نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ
چیف جسٹس نے تینوں ملزمان کو عدالت میں کھڑا کردیا،
تینوں ملزمان کی حاضریاں لگنی ہیں،چیف جسٹس
ملزمان کو سامنے لائیں دیکھنا چاہتے ہیں, چیف جسٹس
ملزمان شاہ رخ جتوئی, سراج تالپور اور سجاد تالپور عدالت میں پیش،
ملزمان کی عدالت میں حاضری لگائی جاتی ہے, چیف جسٹس
ایک ملزم تاحال جیل میں ہے, لطیف کھوسہ
جیل میں موجود ملزم غلام مرتضی دیگر ملزمان کا ملازم ہے, چیف جسٹس
جیل میں ہمیشہ ملازم ہی جاتے ہیں امیر نہیں, جسٹس آصف سعید کھوسہ
عدالت کیس کےمیرٹ کو نہیں دیکھ رہی چیف جسٹس
عدالت نے یہ دیکھناہے کہ مقدمہ دہشت گردی کاہے چیف جسٹس
سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ سیشن کورٹ کو بھیج دیاچیف جسٹس
سندھ ہایی کورٹ نے سیشن عدالت کومقدمہ بھیجتے وقت سپریم کورٹ اور اے ٹی سی کے فیصلوں کومدنظر نہیں رکھا چیف جسٹس
ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بائی پاس کرکے حکم جاری کیا جسٹس کھوسہ
جب سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کیا فریقین میں سمجھوتہ ہوچکاتھا چیف جسٹس
اس وقت سمجھوتہ ہوچکاتھا فیصل صدیقی
پھرسمجھوتے کی بنیاد پرہائی کورٹ نے ملزمان کوبری کیاہوگا چیف جسٹس
فیصل صدیقی کے دلائل مکمل
جبران ناصر کاحق دعوی نہیں بنتا وکیل لطیف کھوسہ
عدالت اس کو نظرانداز کرے گی تو عدالتی زیرالتوامقدمات کی تعداد 18لاکھ سے 18کروڑ ہوجائے گی لطیف کھوسہ
حق دعوی پر اعتراض ہے توحق دعوی پر فیصل صدیقی کوسنناہوگا چیف جسٹس
شاہ رخ جتوئی کی طرف سے میں دلائل دوں گا. ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ
بابر اعوان کہاں ہیں انکو بلا لیں. چیف جسٹس
ایک ملزم جیل میں ہے. لطیف کھوسہ
کیا بابر اعوان جیل چلے گئے ہیں؟ جسٹس کھوسہ

میں یہ نہیں کہ رہا. ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ
میں سمجھا شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں بابر اعوان جیل چلے گئے، جسٹس کھوسہ
جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں مسکراہٹیں
شکایت کنندہ یا متاثرہ خاندان آئے اسے سنا جاسکتا ہے. چیف جسٹس
کسی این جی او یا سول سوسائٹی کو فریق بننے کا حق کیسے دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس
میں کسی این جی او پر الزام نہیں لگا رہا لیکن کوئی این جی او پلے کارڈز ہاتھوں میں اٹھا کر سڑکوں پر بیٹھ جائے تو اس کو مقدمہ دائر کرنے کا حق کیسے مل جائے گا؟ چیف جسٹس
مقدمہ دائر کرنے کے لیے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے. چیف جسٹس
اگر ہر کسی کو اجازت دی تو اس سے استحصال ہوگا. چیف جسٹس
والدین نے راضی نامہ کرلیا, فریقین کے راضی نامہ کرنے کے بعد این جی او کو کیسے سن سکتے ہیں؟ چیف جسٹس
ریاست نے بھی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا. جسٹس آصف سعید کھوسہ

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے