کالم

شعیب شیخ کے ساتھ کیا ہوا؟

فروری 9, 2018 9 min

شعیب شیخ کے ساتھ کیا ہوا؟

Reading Time: 9 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
ساڑھے نو بجے کمرہ عدالت میں شعیب شیخ اور بول ٹی وی کے چالیس سے زائد کارکن و صحافی ایگزیکٹ ڈگری ازخود نوٹس کیس کی سماعت کیلئے موجود تھے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی عدالتی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ میں نے متفرق درخواست دی ہے اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (ٹی وی چینل مالکان کی تنظیم) پی بی اے کی طرف سے پیش ہو رہی ہوں۔ اس کے علاوہ صحافیوں نے بھی مجھ سے رابطہ کیا ہے کہ ان کے بقایات جات بول ٹی وی کے ذمے ہیں اس میں بھی نمائندگی کروں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا اس مقدمے سے کیا مفاد ہے؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پی بی اے ٹی وی چینلز مالکان کی تنظیم ہے اور پہلے بھی اس میں فریق بن چکی ہے۔ اس عدالت میں آج سرخ جیکٹس پہنے لوگ بول ٹی وی سے ہیں اور ۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کمرہ عدالت میں صرف ایک سرخ جیکٹ پہنے نظر آ رہا ہے۔ بول ٹی وی کے مالک شعیب شیخ نے فورا کہا کہ میں عاصمہ جہانگیر کی بات پر اعتراض کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کون ہیں؟۔ جواب دیا کہ میں شعیب شیخ ہوں اور سرخ کوٹ کے بارے میں بات کرنا غلط ہے، نشانہ بنانے کی کوشش ہے، یہ ایک ذاتی نوعیت کا حملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں (عاصمہ جہانگیر) نے ایسا کیا کہا؟۔ وہ ہمیں مخاطب کر رہی ہیں۔ اور جب آپ عدالت میں بولنا چاہیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔ یہ پاکستان کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے۔ اگر یہ کسی معاملے میں ملوث نہیں تو کلیئر ہو جائیں گے، یہ عوامی نوعیت کا معاملہ ہے، ہر ایک جانتا ہے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو مخاطب کرکے کہا کہ ہمیں آپ پر اعتماد ہے اور یہ بطور چیف جسٹس میرا نہیں، پوری سپریم کورٹ کا آپ پر اعتماد ہے۔ ہم نے ڈی جی سے اس کیس میں رپورٹ طلب کی ہے، ان کو تفصیل بتانے دیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ ایف آئی اے نے وہ حقائق سپریم کورٹ کے سامنے نہیں لائے جو نچلی عدالتوں میں پیش کیے گئے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سماجی مقدمہ بازی ہے، آپ کسی بھی موقع پر نشاندہی کرسکتی ہیں کیونکہ یہ معاشرے کیلئے ہے۔ اس میں جذباتی (ایکسائیٹڈ) ہونے کی ضرورت نہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ آرٹیکل انیس بھی ہے۔ یہ بھی دیکھا جائے جو پیسہ آ رہا ہے اس کا ذریعہ کیا ہے۔ اسی دوران عدالت میں اینکر جاویداقبال نے ہاتھ بلند کر کے بات کرنے کی اجازت چاہی، اور کہاکہ ہمارے بول ٹی وی کے ذمے بقایا جات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تشریف رکھیں،سنیں گے۔ میری عادت ہے کہ جب کوئی بات کرنے کیلئے ہاتھ اٹھا لے تو کبھی کسی کو اگنور نہیں کیا۔ ہم یہ دیکھ رہے کہ اگر پاکستان کی عزت متاثر ہوئی ہے تو اس کی بحالی کیسے کریں۔ابھی ہم نے معاملے پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی ہے۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے؟۔
ڈی جی بشیر میمن نے عدالت کو بتایاکہ ایگزیکٹ سنہ دوہزار چھ میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں بطور کمپنی رجسٹرڈ ہوئی، اس کے مختلف کاروباری یونٹس ہیں، مختلف بلڈنگز ہیں، مرکزی دفتر خیابان اتحاد کراچی ڈی ایچ اے میں ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کاروبار کی نوعیت کیا ہے؟۔ ڈی جی نے بتایا کہ کاروبار بہت زیادہ ہیں، بڑا کاروبار سافٹ ویئر کی ایکسپورٹ ہے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ سے الحاق ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بھی لائسنس دیاہے۔ان کے دس بزنس یونٹ ہیں، ستر فیصد بزنس یا کمائی آن لائن یونیورسٹی سے آتی ہے۔ ان کی تین سو یونیورسٹیاں آن لائن تھیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ان کے یونیورسٹیوں کے ساتھ کوئی ارینجمنٹ تھا، یا پھر کوئی سیٹ اپ بنایاتھا؟۔ ڈی جی نے بتایاکہ انہوں نے ہریونیورسٹی صرف ایک ویب پیج کے ذریعے بنائی، اس کو نام دیا، اور پھر سوشل میڈیا یعنی ٹویٹر اور فیس بک پر اپنے ہدف والے علاقے میں اس کا اشتہار چلا دیا۔ایگزیکٹ کے کراچی دفتر میں پانچ زبانوں کے ماہر بیٹھتے تھے، امریکی طلبہ کے فون پر انہی کے لہجے میں جواب دیتے تھے، یہ انگریزی، عربی، فرنچ اور اسپینش زبان اور لہجے پر مہارت رکھتے تھے۔ ان کے پاس کیمپس تھا، کلاس روم اور نہ ہی فیکلٹی تھی، طلبہ صرف آن لائن تھے، اور ایک گھنٹے بعد ڈگری مل جاتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آن لائن ڈگری تو علامہ اقبال اور ورچول یونیورسٹی بھی دیتی ہے۔بشیر میمن نے بتایاکہ ان کے ٹویٹرز ہیں، کلاس روم بھی ہیں۔ایگزیکٹ میں اگر میں فون کروں اور کہوں کہ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری درکارہے تو یہ مجھ سے میرا تجربہ پوچھیں گے اور پھر پانچ ہزار ڈالرز پر تفتیش میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیدیں گے، اور اگر میں نے ماسٹرز نہیں کیا تو پہلے اس کی ڈگری پیسے لے کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہاکہ میرا 1980 سے وکالت کا تجربہ ہے، وفاقی سیکرٹری قانون بھی رہاہ وں، برسوں سے جج بھی ہوں، کیا مجھے بھی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل سکتی ہے؟۔ڈی جی بشیر میمن نے کہاکہ آپ کو قانون، انگریزی اور اردو ادب میں بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل سکتی ہے اگر پیسے جمع کراتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں، میری انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے۔بتائیں ان کا الحاق کس یونیورسٹی سے تھا؟۔ بشیر میمن نے کہا کہ الحاق کیلئے بھی انہوں نے خود ہی پلیٹ فارم بنایا تھا، ایگزیکٹ کے ساتھ ہی الحاق تھا اوراس کیلئے کوئی مشکل کام نہیں کہ ایک ویب پیج بنادیاجائے جو انہوں نے کیا۔اس کام کیلئے تو کوئی کمرہ بھی نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بات تو عام ہوگئی اس لیے آپ نے ایکشن لیا، آپ کو تو پتہ ہی نہیں تھا اور نہ آپ نے معلوم کرنا تھا، 2006سے 2015 تک یہ کام ہوتارہا۔اگر یہ الزام درست ہے تو لوگوں کو لوٹاجاتارہا اور ان سے فراڈ کیا گیا، جب عالمی میڈیا میں آیاتو پھر ایف آئی اے نے کارروائی کی۔کیا آپ نے تفتیش مکمل کرلی ہے؟ اور اب صرف عدالت میں ثابت کرنا باقی ہے کہ الزام درست ہے؟۔
ڈی جی نے بتایاکہ دو مقدمات میں ملزمان بری ہو گئے ہیں، ایک اسلام آباد میں منی لانڈرنگ اور دوسرا کراچی میں، اب ان فیصلوں کے خلاف اسلام آباد اور کراچی ہائیکورٹس میں ایف آئی اے کی اپیلیں زیرالتواء ہیں۔
چیف جسٹس نے سندھ ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ اپیل سماعت کیلئے لگائی نہیں گئی۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہاکہ کیوں؟۔ بتائیں؟۔ پھر ہدایت کی کہ اس کیلئے خصوصی بنچ بنائیں، سند ھ ہائیکورٹ ڈویژن بنچ کے سامنے اپیل لگائے ، دن رات مقدمے کی سماعت کرکے پندرہ دن میں فیصلہ کریں۔ ڈی جی نے بتایاکہ اینٹی منی لانڈرنگ قانو ن کے تحت مقدمہ درج کیا، اسلام آباد کی عدالت سے ملزمان بری ہوگئے۔اس کے خلاف اپیل کی ہے۔ چیف جسٹس کے طلب کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے بتایاکہ بائیس فروری کو اپیل سماعت کیلئے مقرر کی گئی ہے اورجسٹس اطہرمن اللہ سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کو ڈویژن بنچ (دوججوں) کے سامنے لگایا جائے اور اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن اورنگزیب کو شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یہ وہی مقدمہ ہے جس میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے کچھ لیا ہے۔ رجسٹرار نے بتایاکہ اس جج پرویزالقادر میمن کو معطل کیا جا چکاہے اور ان کے خلاف کارروئی ہائیکورٹ میں کی جارہی ہے، پیر کو ان کا معاملہ ہائیکورٹ کی کمیٹی دیکھے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کی روزانہ کی بنیاد ہمیں رپورٹ دیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی بشیر میمن کو مخاطب کرکے کہاکہ یہ جج تو آپ کی برادری کا نکل آیا۔بشیر میمن نے کہاکہ یہ اس کا انفرادی فعل ہے، وہ میرا عزیز بھی ہے، نہیں معلوم کہ قصوروار ہے مگر مجھے شرمندگی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آپ کا بڑا پن ہے کہ کھلی عدالت میں یہ کہا۔
اس کے بعد پشاور میں پروفیسر کی ایگزیکٹ ڈگری پکڑے جانے کے مقدمے کے بارے میں بتایاگیا۔ ( اسی دوران بول ٹی وی کے پشاور کے بیورو چیف ظاہرشاہ شیرازی اپنی نشست سے اٹھ کر شعیب شیخ کی نشست پر گئے اور ان سے کچھ سرگوشی کی)۔ عدالت کو ایف آئی اے کے ڈی جی نے بتایاکہ ڈیڑھ سال سے پشاور ہائیکورٹ نے یہ مقدمہ سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کیا۔عدالت نے رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ کو بلایا تو ایک شخص نے کہاکہ وہ سینئر کلرک ہے اور پشاور ہائیکورٹ سے آیاہے۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہاکہ رجسٹرار کیوں نہیں آیا؟ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟۔ اس کے ساتھ ہی عدالتی عملے کو ہدایت جاری کی کہ رجسٹرار سپریم کورٹ سے کہیں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے رابطہ کرکے پیغام پہنچائیں، اگر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یحی آفریدی عدالت میں بھی بیٹھے ہوں تب بھی ان تک پیغام پہنچایا جائے۔ پشاورہائیکورٹ کے سینئر کلرک نے سپریم کورٹ کو بتایاکہ ایگزیکٹ کیس کا فیصلہ ہوچکاہے، انیس جنوری کو جسٹس روح الامین نے کیس خارج کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ محکمہ تعلیم اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے۔ ایف آئی اے پشاور کے تفتیشی افسر نے کہاکہ اس حکم نامے کی تحریری نقل ہمیں آج تک نہیں ملی۔چیف جسٹس نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ کیس میں جو بھی کیا، سپریم کورٹ اب اس کا ازخود نوٹس لے کر دیکھے گی۔ عدالت نے حکم جاری کیاکہ پشاور ہائیکورٹ کے رجسٹرار سپریم کورٹ پیش نہ ہونے پر دو دن میں وضاحتی جواب جمع کرائیں۔
ڈی جی نے بتایاکہ کراچی کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میڈم سارہ جونیجو کی عدالت میں چوتھے مقدمے کا ٹرائل زیرالتوا ہے، اس میں چارگواہوں کے بیان قلمبند ہونا رہ گئے ہیں۔(اسی دوران عدالت میں شعیب شیخ اپنی نشست سے اٹھے اور ہاتھ کھڑا کیا)۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہاکہ سٹ ڈاﺅن، کیا مسئلہ ہے تمہیں؟۔ادھر آﺅ۔ شعیب شیخ روسٹرم کے قریب گئے تو چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا۔ شعیب شیخ نے کہاکہ سر، میں سمجھاکہ آپ نے کہاکہ سارے ملزم کھڑے ہو جائیں۔
عدالت کو ایف آئی اے کے افسر نے بتایاکہ کراچی کی ماتحت عدالت میں کیس کے دوران ملزمان پندرہ سماعتوں پر پیش نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے ان ملزمان کی ضمانت کی منسوخی کیلئے فوری درخواست دائرکی جائے۔ کراچی ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے بتایاکہ ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان سب ملزمان کی ضمانتیں ہم ابھی منسوخ کرکے ان کے نام ای سی ایل میں شامل کرتے ہیں۔یہ میرے ملک کیلئے باعث شرم ہے، اپنے ملک پر اس دھبے کو نہیں لگنے دیں گے۔
شعیب شیخ اور اس کے ٹرائل کورٹ میں وکیل روسٹرم پر پہنچے ۔ ٹرائل کورٹ کے وکیل سے چیف جسٹس کا سخت مکالمہ ہوا۔اس کے بعد شعیب شیخ نے سلام کرکے بات کرنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس نے کہاکہ اب تمہاری طبیعت ٹھیک ہوئی ہے نا۔ کچھ دیر پہلے کس رعونت سے عدالت میں کھڑے تھے، اب سلام کرنے پر آگئے ہو۔ یہ ان سب لوگوں کیلئے پیغام ہے جو باتیں کرتے ہیں۔ شعیب شیخ نے کہاکہ میرا میڈیا ٹرائل کیا گیا، گزشتہ سماعت کے بعد بھی وہ کچھ کہا گیا جو عدالت میں بات ہی نہیں ہوئی تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیلئے پیمرا میں جائیں۔اگر آپ کی ہتک ہوئی ہے۔ شعیب شیخ نے کہاکہ جس طرح عدالت نے شاہدمسعود کے معاملے میں کیاہے، میں بھی اسی طرح ۔۔۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شاہد مسعود کیس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ شعیب شیخ نے کہاکہ میرے دس ہزار ملازم ہیں، ان کی نوکریوں کامسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہاں صرف متعلقہ بات کریں، معلوم ہے کہ آپ بہت اچھے مقرر ہیں۔
شعیب شیخ نے عدالت میں بولنے کی اجازت ملنے کے بعد کہاکہ ایف آئی اے نے ڈکلن والش کی خبر پر نوٹس لیا جس کو حکومت پاکستان نے ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکالا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ یہ بتائیں کہ 330یونیورسٹیاں چلانے کے الزام کا کیاجوا ب ہے؟۔ الزام ہے کہ پیسے آتے تھے اور سرکولیٹ کرکے منی لانڈرنگ ہو رہی تھی۔ شعیب شیخ کا کہنا تھاکہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں ہے کہ ایگزیکٹ کاتمام کاروبار قانون کے مطابق ہے، امریکا سے رابطہ کرکے بھی انہوں نے پوچھ لیاتھا، وہاں کے محکمہ تعلیم نے بھی ان کو جواب دیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ امریکی عدالت نے بھی فیصلہ دیا ہے۔ شعیب شیخ نے کہاکہ وہ مجھ سے متعلق نہیں تھا، سول کیس تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھاکہ کیا آپ پی ایچ ڈی کی ڈگری دیتے تھے؟۔شعیب شیخ نے کہاکہ ڈگری ہمارے کلائنٹ دیتے تھے، سپریم کورٹ کے اس کیس میں فیصلے سے ٹرائل متاثر ہوگا اور پچاس بلین کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ متاثر ہونے کا خطر ہ ہے۔
چیف جسٹس نے شعیب شیخ کی بات پر فورا کہاکہ اوہو، اوہو، آپ کاٹرائل متاثر ہوگا،میں ہی تمہارا ٹرائل کرلیتا ہوں۔ شعیب شیخ نے کہاکہ آپ کا بہت تجربہ ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ آن لائن ایجوکیشن پوری دنیا میں ہے، سپریم کورٹ ہی اس کو سمجھ کر فیصلہ کرے، یہ اس انڈسٹری اور ملک کے مستقبل کاسوال ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے لکھواتے ہوئے کہاکہ سندھ اور اسلام آباد ہائیکورٹس ایگزیکٹ کے حق میں فیصلوں کے خلاف ایف آئی اے کی اپیلوں کا ایک ماہ میں فیصلہ کریں۔ پشاور ہائیکورٹ نے مقدمے میں درج ایف آئی آر ہی ختم کردی ہے اس لیے یہ عدالت اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فائل منگواتی ہے۔کراچی کی ماتحت عدالت چوتھے مقدمے میں تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرکے دوماہ میں فیصلہ دے۔ ماتحت عدالتیں سپریم کورٹ کی سماعت سے متاثر ہوئے بغیر میرٹ پرفیصلے کریں۔وزارت داخلہ کو حکم دیا جاتاہے ساتوں ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول فہرست میں فوری طور پر شامل کیے جائیں۔
اسی دوران شعیب شیخ نے کہاکہ اس حکم سے میرا میڈیا ٹرائل شروع ہو جائے گا، مخالف چینل اس حکم کو لے کر پروپیگنڈا کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ میڈیا ٹرائل دونوں طرف سے ہورہاہے،آپ کے چینل پر عامرلیاقت جوکرتارہاہے وہ بھی معلوم ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ میڈیااس معاملے کو خود دیکھے اور اپنے آپ کو درست کرے۔
اینکر جاوید اقبال نے عدالت کو بتایاکہ ہماری تنخواہوں اور بقایا جات کی ادائیگی کا بھی شعیب شیخ سے پوچھ لیاجائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیلئے درخواست دیں۔ صحافی مظہراقبال نے کہاکہ میں یونین کا صدر ہوں، درخواست لے کر آیا تھا، کمرہ عدالت کے دروازے پر موجود پولیس اہلکار نے لے لی ہے، اندر لانے نہیں دے رہاتھا۔ چیف جسٹس نے سخت غصے میں ایس پی سیکورٹی کو طلب کیا،اے ایس آئی رینک کا پولیس افسر عدالت میں پیش ہوا، پوچھنے پر بتانا کہ ہمیں حکم ہے کہ اس طرح کسی کو درخواست ہاتھ میں لے کر کمرہ عدالت میں نہ جانے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے سپریم کورٹ میں ایسے پولیس اہلکار نہیں چاہئیں، فوری طورپر عدالت اور سپریم کورٹ کی عمارت سے نکل جائیں، آپ کو معطل کیا جاتاہے۔ اہلکار نے اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں جو ہدایات تھیں اس کے مطابق کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کس نے حکم دیاہے کہ میری عدالت میں آنے والے سائلین کو روکا جائے۔
جاری ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے