پاکستان24 متفرق خبریں

جسٹس صدیقی نے کیا کچھ کہا

فروری 16, 2018 4 min

جسٹس صدیقی نے کیا کچھ کہا

Reading Time: 4 minutes

سینئر صحافی اور وقت نیوز کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں ہوئی  ۔ وکلا کی جانب سے اسلام آباد کچہری کے ساتھ فٹ گراونڈ پر قبضے پر مبنی پروگرام اپنا اپنا گریبان ملٹی میڈیا پر چلانے کے بعد سماعت جاری تھی کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وقت گروپ کی مالک رمیزہ نظامی کو مخاطب کر کے کہا جی میڈم اپ نے پروگرام دیکھا؟

رمیزہ نظامی نے کہا جی آپ کے نوٹس لینے کے بعد پروگرام دیکھا، پروگرام میں کسی قسم کی بدنیتی  کا عمل دخل نہ تھا_ جسٹس شوکت عزیز نے انہیں ٹوکا کہ آپ نے نہیں دیکھا کے چیف جسٹس اور مجھے ثاقب نثار اور شوکت عزیز پکارا جاتا رہا، مطیع اللہ جان چار سال پہلے سفید بالوں اور آج کالے بالوں کے ساتھ پروگرام کر رہے ہیں، پروگرام بلیک میلنگ نہیں؟ پیمرا کو پروگرام نہ بھیجا جائے؟ وکلا برادری کی کردار کشی کی گئی، سول جج کے فیصلے پر اینکر کہے گا کہ غیر قانونی ہے۔ کسی اینکر کو اختیار نہیں، جیو نے بھی پرسوں تماشا لگایا _
ایک وکیل بولا کہ جناب انہوں نے آپ کا تیرہ مرتبہ نام لیا، دیگر وکلا بولے کے اپ نے تجاوزات ہٹانے کیلے احکامات دیے _ جسٹس شوکت عزیز نے کہا اینکر کو اتنی اخلاقی جرات نہ ہوئی کہ اس بارے میں اچھا کہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ چیف جسٹس کیلے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے جملے کہے گئے۔اینکرز کیلے کوئی لائسنس یا ٹریننگ ہے؟
وقت ٹی وی کےوکیل صفائی بولے کہ پروگرام میں کچھ الفاظ کا چناؤ مناسب نہ تھا۔ ان کو جج صاحب نے ٹوکتے ہوئے کہا سوسائٹی میں دراڑ نہ ڈالیں جو پہلے سے تقسیم ہے، آپ کے پاس کیمرہ آگیا ہے، آپ خدا بن گے ہیں۔
پروگرام میں دیکھیں مطیع اللہ جان کی آنکھیں نہیں کھل رہیں، اپ کے اس پروگرام کے خلاف نوٹس کر رہا ہوں، میں آپ کو defend نہیں کرنے دوں گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رمنیزہ مجید کو مخاطب کر کے کہا کہ اللہ نے آپ پر کرم کیا ہے، بیٹھے بٹھائے اپ کو میڈیا ایمپائر مل گئی، یہ ایک مقدس اخبار ہے اسے کا کیا حال بن گیا ہے، کس طرف لے کر جا رہے ہیں ۔
وکیل صفائی نے پروگرام کے حوالے سے کہا کہ ہر گز ہرگز اس کا مقصد توہین کرنا نہیں تھا _
اسی اثنا میں وکلا کی ایک بڑی تعداد جو کمرہ عدالت میں ہی موجود تھی میں سے ایک وکیل بولے کہ مطیع اللہ جان اپنے والد کا بھی احترام نہیں کرتے۔ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور صحافتی یونینیز کے نمائندے اس تضحیک پر زیر لب ابھی بولے ہی تھے کہ مطیع اللہ جان نے کہا کہ جج صاحب اپ کی عدالت میں اپ کے سامنے یہ بد تمیز ی ہو رہی ہے اس کے باوجود وکلا بولتے رہے تب جسٹس شوکت عزیز نے انہیں چپ رہنے کا حکم دیا
جسٹس شوکت عزیز بولے اپ ہمارے خلاف بولتے ہیں ہم کس فورم پر جائیں اپ کو لائسنس ٹو کل مل گیا،کیونکہ اپ اینکر جو ہیں۔
نوے فیصد وکلا قانون کے رکھوالے ہیں اپ نے سب کو بدنام کیا اور عدالت کو بھی۔آپ کون ہیں سول جج پر سوال اٹھانے والے؟
ایک اور بزرگ نیم سفید ریش وکیل بولے کہ لفظ گوشمالی پر ایکشن لیں، میں درخواست لکھتا ہوں اور مزید آئندہ ٹی وی پروگرامز میں وکلا گردی کا لفظ نہ استعمال کیا جائے۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ کو نوٹس جاری کریں اور سوموار کو پروگرام کا ٹرانسکرپٹ لایا جائے۔ ویلنٹائن ڈے پر اینکرز کو پابندی پر بہت دکھ ہو گا کیونکہ ان کی بوتلیں ٹوٹ گئی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ مطیع اللہ جان ذاتی طور پر مجھے جانتے ہیں، کوئی مجھ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، کورٹ میں بیٹ رپورٹرز سے چھوٹے بھائیوں والے تعلقات ہیں۔
وقت ٹی وی کے وکیل بولے کے ہم عدالتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں، رمیزہ مجید میٹرنٹی کے مراحل میں ہیں اس لیے پہلے حاضر نہ ہو سکی۔
انہوں نے کہا اللہ ان کو بے بی بوائے دے۔
یہ شاید دوسرے چینل دیکھتی ہیں اپنا دیکھتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ آپ کا پروگرام منفی تاثر پر مبنی تھا۔ چیف جسٹس کو صرف نام سے بار بار پکارا گیا۔ سب میڈیا اور نوائے وقت یاد رکھے اپ نے ٹی وی اور اخبار دو قسم کے لائسنس لے رکھے ہیں اپ لوگ ایک آرڈر کی مار ہیں _

نوائے وقت کے کالم نگار اسلم خان نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے خلاف وکلا کی جانب سے ذاتی باتیں کیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں ۔ اس وقت ملک میں عجیب صورتحال ہے اور نوائے وقت آخری امید کی کرن ہے۔آپ درگزر فرمائیں _

جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ اسلم صاحب اللہ نے مجھے بڑا ظرف دیا۔ مطیع اللہ نے توہین  رسالت کیس میں مجھ پر کالم لکھا اور منافق کے آنسو کے الفاظ استعمال کیے ۔ میں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میں نے جو فیصلے کیے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔آپ ہمیں مضبوط کریں ۔سلیم بخاری،جاوید صدیق ،نواز رضا نوائے وقت میں ہیں، ہمارے سامنے نوائے وقت کے بانیان ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز آرڈر لکھوانے لگے،کہا سب کی حاضری لگائیں ،بار کی جانب سے وکلا کی حاضری لگائیں۔ایڈوکیٹ جنرل کی حاضری لگائیں۔انہوں نے وقت ٹی وی کے صحافیوں اور مینجمنٹ کو مخاطب کر کے کہا کہ اپ سوموار کو تحریری معافی نامہ جمع کرائیں۔-انہوں توقف کیا اور کہا کہ اپ لوگوں کی آوازیں آئی ہیں تو آپ کی کیا مرضی ہے، معافی مانگیں گے یا کیس لڑیں گے۔
وکیل صفائی نے استدعا کی کہ ہمیں پانچ منٹ کا مشاورت کیلے وقت دیا جائےجس پر عدالت نے انہیں اجازت دے دی _

وقفے کے بعد جب وقت گروپ کے صحافی عدالت میں داخل تو فحش ویب سائٹس کی بندش پر کیس کی سماعت جاری تھی، سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز نے سینر صحافی سلیم بخاری کو آگے آنے کو کہا اور توہین رسالت کیس کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے کہا کہ اج تک کسی اور ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوئی اور اج اس قانون کا غلط استعمال کرنے والے کیلئے بھی کڑی سزا ہے
سلیم بخاری بولے اپ کے کئی اچھے فیصلے ہیں جنہیں ہم سراہتے ہیں ۔ اس پر جج صاحب نے کہا اپ ایسی چیزوں کو اجاگر نہیں کرتے فٹ بال گراونڈ کے پیچھے پڑے ہیں۔
بعد ازاں وقت نیوز کے توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے کہا کہ انہیں سوموار تک وقت دیا جائے،  وہ اپنے وکیل سے مشورہ کریں گے کہ انہوں نے معافی نامہ جمع کرانا ہے یا کیس لڑنا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے رمیزہ مجید کی درخواست پر انہیں اگلی پیشی سے استثنی دیتے ہو سماعت سوموار تک ملتوی کر دی _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے