کالم

چیف جسٹس کی باتیں بڑا وزن رکھتی ہیں إ

فروری 17, 2018 4 min

چیف جسٹس کی باتیں بڑا وزن رکھتی ہیں إ

Reading Time: 4 minutes

مریم نواز کا مانسہرہ میں خطاب انتہائی جارحانہ رہا، دفتر سے گھر کے راستے پر ستارہ مارکیٹ جی سیون میں رات کا کھانے کے لیے ہوٹل میں بیٹھا تھا،میرے سامنے والی میز پر چار نوجوان بیٹھے تھے جوآرڈر کے بعد کھانے کا انتظار کر رہے تھے،،وہ نوجوان بھی مریم نواز کے مانسہرہ خطاب پر بحث کر رہے تھے، ان کی یہ بات چیت کھانا آنے تک جاری رہی،چاروں نوجوانوں کی مانسہرہ خطاب پر بحث اپنی جگہ،،ان میں سے ایک نوجوان کی بات نے مجھے چونکا دیا،، اس نے ٹحیک وہی بات کی جو چند روز قبل عدالت عظمی میں اہم ترین کے مقدمہ کی سماعت کے دنوں میں ن لیگ کے سینئر رہنما نے بھی کی،،نوجوان سوال کے انداز میں کہہ رہا تھا آخر شریف خاندان کے مقدمات انہی ججز کے سامنے ہی کیوں لگتے ہیں جنہوں نے پناما،عمران خان اور جہانگیر ترین کیس کو سنا،،کیا سپریم کورٹ کے دیگر جج ایسے مقدمات نہیں سن سکتے یا عدالت عظمی میں مزید جج نہیں؟ اس نے نوجوان نے آخری بات جو کہی وہ لکھی نہیں جا سکتی،لودھراں میں ضمنی الیکشن کے نتائج اور اس سے قبل ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کی جیت، بظاہر لگتا ہے ن لیگ کا اپنے خلاف سازش کا بیانیہ جڑپکڑ رہا ہے،، یہ بیانیہ کہیں نہ کہیں اہم مقدمات میں ججز کی ممکنات اورامکانات پر مبنی آبزرویشنز سے بھی تقویت حاصل کر رہا ہے۔
مریم نواز کی مبینہ تقریر پر نوجوانوں کا مباحثہ اپنی جگہ لیکن ہمارے قومی سیاسی رہنماوں کا کوئی جواب یا ثانی نہیں،جمہوریت پرآمریت کا سایہ پڑ جائے تب انہیں جمہوری نظام کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، ان حالات میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنے مخالفین کو اپنے قافلہ میں شامل کر لیتے ہیں، یہی سیاسی رہنما جمہوریت کے دوران ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے سچے مقدمات کا اندراج کراتے ہیں، آمریت کے گہرے سیاہ اندھیروں میں دبک کے بیٹھ جانے والے یہ سیاسی رہنما حالات سازگار ہونے پر ذاتی اختلافات سے بالاتر آمریت کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں، عوام،سول سوسائیٹی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی جدجہد سے جب جمہوریت کی نئی صبح کا آغاز ہوتا ہے توعوام کو نئی امید، نئے وعدے اور وعیدیں سنائی جاتی ہے، بد قسمتی سے وفاق اورصوبائی سطح پر حکومتوں کی تشکیل کے بعد عوام کو روٹی،کپڑا، مکان کی فراہمی، تبدیلی،ترقی اورخوشحالی کے وعدے اور نعرے ان سیاسی رہنماؤں کے ذاتی مفاد اوراقتدار کو دوام بخشنے والی ترجیحات میں بدل جاتے ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں،مشترکہ جدوجہد سے حاصل کیے تخت اقتدار پر بلا شرکت غیرے بیٹھنے کے خواب دیکھے اور انہیں تعبیر دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں، سیاسی مخالفین کو معاشرتی ناسور، درندہ، ذہنی مریض قرار دینے کے ساتھ ساتھ برے برے القابات سے نوازا جاتا ہے، یہی نہیں سیاسی مخالفت میں انتہائی مقدم پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجی جاتی ہیں، مستعفی ہونے کے سرعام اعلانات ہوتے ہیں، لیکن پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آتی ہیں یا پھر کسی‘‘نہایت محترم و قابل عزت شخصیت’’ کے کہنے پر یو ٹرن لے لیا جاتا ہے۔
عام انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں شکست سے دوچار ہوتی ہیں وہ عوامی اپوزیشن کی بجائے شارٹ کٹ سے حکومت میں آنے کے جتن کرتی ہیں، سیاسی گند کو دھونے اور مخالفین کو ناک آوٹ کرنے کے لیے عدلیہ کی لانڈری کا انتخاب کیاجا تاہے، عام انتخابات 2013 کے بعد یہی کچھ ہوا، تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو کہیں نہ کہیں حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کرکے بھی تمام سیاسی جماعتیں معصوم اور دودھ کی دھلی ہیں۔ دھرنے، جی ٹی روڈ سمیت دیگر ریلیاں، لانگ مارچ، پارلیمنٹ عدلیہ اور قومی اداروں پر حملوں میں عوامی مسائل کہاں ہیں؟؟ اس سارے کھیل میں بدنام کون ہوا؟ عدلیہ اوردیگر قومی ادارے؟ یا سیاسی جماعتیں؟ مورخ جب بھی لکھے گا تو بتائے گا سیاسی کھیل کا فائدہ کسے ملا اور نقصان کس کا ہوا۔
سیاسی جماعت کتنی ہی اصول پسند ہوں لیکن حصول اقتدار ہی اس کا اولین مقصد ہوتاہے، جسے حاصل کرنے کیلئے ہرطریقہ آزمایا جاتا ہے۔ بالی ووڈ فلم ریئس کا ڈائیلاگ بڑا صادق آتا ہے۔۔۔‘‘کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا’’۔۔۔۔ ایسے لگتا ہے ہمارے سیاسی رہنما قومی اداروں و عدلیہ کی سیاسی مخالفت میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ انصاف کے اداروں اور منصب عدل پر بیٹھے معزز جج صاحبان کو بدنام کرے یا ان کی توہین کرے، حکومتی یا دیگراداروں سے مایوس ہوکرلوگوں کےلیے آخری امید عدلیہ کا در ہو تاہے۔ دستور پاکستان عدلیہ اور ججز کی عزت و تکریم کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اگر کوئی عدلیہ کی توہین یا تذلیل کرے تو عدلیہ آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت قانون کے تحت ایکشن لینے کی مجاز ہے، دوسری جانب معزز ججز کے لیے مناسب نہیں وہ سیاسی حملوں کا جواب اسی انداز میں دیں جس انداز میں انہیں برا بھلا کہا جائے، الیکشن ریفارم ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس ثاقب نثار نے معزز جج جسٹس اعجاز الاحسن کا حوالہ دیکر کہا وہ دور پرانا ہو گیا کہ جج اپنے فیصلوں سے بولتا ہے، انہوں نے کہا برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا جس کے مطابق عدالتی فیصلے یا عدلیہ کے خلاف بدگمانی پھیلانے پر جج ادارہ جاتی جواب دے سکتا ہے۔
میری نظر میں ہمارے اور برطانوی معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے، برطانوی معاشرے کی سویلایئزیشن کے ہم قریب تر بھی نہیں، اگر ہمارے معزز و متعبر ججز سیاسی حملوں پر ردعمل دینے لگے تو سیاسی رہنماوں اورججز میں کیا فرق رہ جائے گا، سیاسی رہنما لوگوں کی نظروں میں بے وقعت ہوتے ہی رہتے ہیں، ججز کے منصب کے وقار پر آنچ آئی تو عوام عدلیہ سے بھی متنفر ہونگے، معزز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جمعہ کو وضاحت کی کہ میڈیا عدالتی ممکنات اور امکانات پر آبزریویشنز کو سیاق و سباق سے ہٹ کرچلاتا ہے، کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے،عدالتی کاروائی کے دوران ججز کی زیادہ ترآبزرویشنز سوال کی شکل میں ہوتی ہے لیکن ایسا بھی دیکھا گیا ہے ارادی یا غیر ارادی طور پر ججزکی زبان سے براہ راست ریمارکس نکل جاتے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا کہ ان کے ریمارکس کسی کی ذات کے خلاف دیے گئے، سیاسی رہنما تو شعلہ بیانی میں دانستہ یا غیر دانستہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرجاتے ہیں لیکن عدلیہ کو ایسی صورت حال میں مختاط ہونے کی ضرورت ہے تاکہ کسی قسم کا غلط تاثر عدلیہ جیسے قابل احترام ادارے سے منسوب کرنے کا کسی کو موقع نہ ملے سکے۔ کسی بھی بدگمانی سے قطع نظر چیف جسٹس ثاقب نثار کی یہ باتیں بڑا وزن رکھتی ہیں جو انہوں نے عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے لوگوں کو توہین عدالت کے قانون کی ضرورت نہیں پڑتی، جس تحمل اور برداشت سے مقدمات کو سنا اس پر انہیں داد ملنی چاہپے، یہاں صلہ نہ ملا تو آخرت میں بخشش ضرور ہو جائے گی کبھی ایسے ریمارکس نہیں دیے جس سے کسی کا مقدمہ متاثر ہوا ہے۔

(عمران وسیم اسلام آباد میں دنیا نیوز سے منسلک ہیں_ یہ تحریر عمران وسیم کی فیس بک سے ان کی اجازت سے لے کر شائع کی گئی ہے)

Facebook: imran.shehri@facebook.com
Twitter.@imranshehri

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے