کالم

صحافی

فروری 21, 2018 3 min

صحافی

Reading Time: 3 minutes

محمد امنان

کرہ ارض پہ جنم لینے والا ہر انسان کچھ خواہشیں اور امیدیں رکھتا ہے_ دنیا میں بسنے والا ہر طبقہ اپنے تئیں کسی نہ کسی نظرئیے کو سپورٹ کر کے اسے سچا ثابت کرنے میں جٹا ہوا ہے،  ہر ادارہ انسانیت کی فلاح کے ٹھیکے دار ، قانون دان ، انسانیت کے رکھوالے،  نیز ہر طبقہ اپنے اپنے شعبے میں کام کر کے تسکین کے مزے لوٹ رہا ہے _

آئیے پاکستان چلتے ہیں_ مملکت خداداد کی آزادی سے موجودہ دن تک بہت سے ادارے وجود میں آئے بہت سے قوانین بنے سب قانون کے دھارے میں آگئے سب کے لئے نجی زندگی کو چلانے کے معاملات پر پالیسیز مرتب کر لی گئیں اپنے تئیں بنانے والوں نے پورے قانون اور حق دینے کے تقاضے مرتب کر ڈالے اس بیچ بے چارہ صحافی کہیں کھو گیا وہ صحافی جو غریب اور مظلوم کا کبھی مسیحا بن جاتا ہے لاچار اور لاغر افراد کا ساتھی ہم وطنوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر اسے ایوانوں تک نشان دہی کروا کر توجہ مبذول کروانے والا صحافی،  کبھی تپتی گرمی میں کسی بھی قسم کا مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کا چہرہ بننے والا صحافی،  خواہ وہ عام آدمی ہو یا کوئی سرکاری ملازم، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا صحافی_

سب کا بوجھ ڈھوتا آ رہا ہے ہر طبقے کی آواز بننے والا صحافی جسے لوگ لفافہ بھی کہتے ہیں جس عوام کے لئے کھڑا ہوتا ہے بعض اوقات وہ لوگ ہی صحافی کو رشوت خور بلیک میلر نا جانے کیا کچھ القابات سے نوازے ہیں یہ صحافی پتہ نہیں کس مٹی سے بنا ہے طعنے تشنوں کے تیر جھیلتا ہے صاحب کی ڈانٹ کھاتا ہے کم تنخواہ میں گزارہ کرتا ہے لمبی کاروں والے سرکاری افسران کی کرپشن کا پول کھولتا ہے مزدور کی سی زندگی بسر کرتا ہے مگر پھر بھی خوش رہتا ہے کچھ دن پہلے دفتر میں کوئی خبر لکھتے صحافی نے ایک خبر سنی کہ چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا_ خوشی کے مارے پگلا ہوگیا کہ آہا مزہ آگیا کوئی تو بولا میرے حق میں، یہ ہوئی نا بات،  اب تنخواہ وقت پر ملے گی،  گھر کا راشن،  ماں کی دوا،  بچوں کی پڑھائی کا خرچہ بل اور تمام اخراجات کا تخمینہ لگا کر ایک ڑھنڈی آہ بھری اور چپ ہو گیا صحافی کے شوز ٹوٹے ہوئے ہیں کسی طریقے سے پیوند لگا کر اس نے خود کو چلنے کے قابل بنا رکھا ہے کہ کہیں معاشرے کا یہ چلتا پھرتا آئینہ ڈگمگا گیا تو دکھی انسانیت کا کیا ہو گا۔۔۔ چیف جسٹس کے نوٹس پر سب اخراجات کا سوچ لینے والا صحافی اپنے ٹوٹے شوز کو بدلنا بھول گیا
آہ!!! صحافی ارمان خواہشات سکھ ان سب سے عاری صحافی آنکھوں کے گرد مرے ہوئے سپنوں کی لاشیں چہرے پر سجا کر جینے والا صحافی کسی حادثے میں فرض نبھاتے ہوئے بے موت مارے جانے والا صحافی عوام کا احتجاج دل و جاں سے کور کرنے والا صحافی خود اپنے لئے احتجاج کا پلیٹ فارم نہ رکھنے والا صحافی ملک میں کسی بھی خوش آئیند ایونٹ پر دھمالیں ڈالنے والا صحافی اپنوں کو ہفتہ ہفتہ شکل نہ دکھانے والا صحافی زندگی کو معاشرے پر وقف کرنے والا صحافی اسکا اپنا اسکی خوشیاں اسکا گھر بار اسکے ملک کی سڑکیں ہیں اسکی چھت نیلا آسمان ہے لیکن اسکی حفاظت کے لئے کوئی قانون نہیں ہے اسکے مر جانے پر اسکے گھر والے اسکی پینشن حاصل نہیں کر سکتے اس صحافی کی اولاد کو ورثے میں چند خبروں کے سوا کچھ نہیں ملتا ملک کی فورسز کے شانہ بشانہ چلنے والا بے وردی سپاہی جسے کوئی بھی اعزاز نہیں ملتا جسکے اہل خانہ کو ملک کے پرچم میں لپٹی لاش نہیں ملتی خون آلود چہرے پر مرنے کے بعد بھی اہل خانہ کی فکرصاف دکھائی دیتی ہے سچ کو اپنا مذہب ماننے والا صحافی مار دیا جاتا ہے بھلا دیا جاتا ہے ظالموں کی نشاندہی کرنے والا صحافی اندر ہی اندر خود کے ساتھ ظلم کر رہا ہوتا ہے کوئی عدالت اسے انصاف نہیں دیتی یہ صحافی جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے خوشی غمی سے بے نیاز رہنے والا صحافی اوروں کے چہرے پر خوشی لا کر احسان نہیں جتاتا یہ لوگ کس دیس سے آتے ہیں کہاں چلے جاتے ہیں کسی کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ صحافی ہیں اچھوت ہیں_
تحریر بے فائدہ میں بیان شدہ کہانی کا کردار ہوں میں،

اس معاشرے کا آئینہ دار ہوں میں
مجھے فخر ہے میں ایک صحافی ہوں

(محمد امنان
گذشتہ تین سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں ایم فل ماس کام کے طالب علم ہیں فیصل آباد سے تعلق ہے طالب علم ہونے کے ناطے صحافت کے طالب علموں کا درد محسوس کرتے ہوئے میڈیا میں ہونے والے ظلم کی ایک تصویری جھلک قلم کے ذریعے تراشنے کی کوشش کی ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے