کالم

کیا فیصلے سے پارلیمان کا استحقاق مجروح ہوا؟

فروری 22, 2018 4 min

کیا فیصلے سے پارلیمان کا استحقاق مجروح ہوا؟

Reading Time: 4 minutes

کیا عدالتی فیصلے نے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کیا ؟

سماعت کے دوران چور اور ڈکیت کے الفاظ کیوں استعمال ہوئے ؟

سپریم کورٹ سے عدیل وڑائچ

سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 203کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ ایک ایسے وقت پر سنایا جب ن لیگ بھرپور انداز میں سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ کی عزت و تکریم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپ رہی تھی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران عوامی جلسوں ، پریس کانفرنسوں اور پارلیمنٹ جیسے فورم پر عدالتی ریمارکس پر اس حد تک تنقید کی گئی کہ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کو وضاحت کرنا پڑی کہ انکے کہنے کا مطلب کیا تھا۔ وزیر اعظم نے اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالتوں میں منتخب نمائندوں کو مافیا، چور اور ڈاکو کہا جاتا ہے۔ جو قانون پاس کیا اسے ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ، کیا اس ایوان کو قانون سازی کا حق ہے ؟ دیگر اداروں کی طرح پارلیمنٹ کا احترام بھی لازمی ہے۔ دوسری جانب نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان ایک جیسی زبان استعمال کر رہے ہیں، مریم نواز نے عوامی جلسے سے خطاب میں کہا کہ پھر جج صاحبان کو بھی اسی زبان میں جواب دیا جائے گا، نواز شریف نے فیصلے سے قبل خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا بنایا قانون ختم کرنا خطرناک ہو گا، پارلیمنٹ کے قانون بھی عدالتی توثیق کے محتاج ہو جائیں تو یہ کونسا آئین ہے۔

اس قانون کا پس منظر یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن بل 2017 کی منظورہ دی تو سیکشن 203 پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔ یہ سیکشن سیاسی جماعت کی ممبرشپ سے متعلق ہے۔ پرانے قانون یعنی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں ممبر سازی کے سیکشن کے مطابق پارٹی سربراہ کیلئے آرٹیکل 62اور63پر اترنا ضروری تھا مگر نئے قانونی مسودے میں اہلیت کے ذکرکو ختم کر دیا گیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جن دنوں میں بل منظور ہو رہا تھا تھا نواز شریف نااہل ہو گئے۔ ابتدائی مراحل کی منظوری میں شریک جماعتوں کو خیال آیا کہ اسکا فائدہ نواز شریف کو ہو گا۔ شیخ رشید، عمران خان اور پیپلز پارٹی سمیت سولہ درخواست گزار سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ن لیگ کہتی رہی کہ قانونی مسودہ تمام جماعتوں کی رضامندی سے تیار ہوا تھا ، یہ بات درست نہیں کہ ن لیگ نے اسے اپنے لیئے بنایا، ن لیگ کی یہ بات درست بھی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں کئی روز تک سنے جانے والے اس کیس میں درخواست گزاروں کے وکلا خصوصا شیخ رشید کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ٹھوس دلائل دئیے تو انہیں جج صاحبان کے سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب دفاع کا وقت آیا تو میاں نواز شریف نےاپنا دفاع کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت اس معاملے پر نمائندگی کرے گی۔ جب ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجا اپنی باری پر روسٹرم پر آئے تو پارٹی صدر کو بچانے کیلئے آئینی اور قانونی دلیلیں پیش کیں۔ انکی دلیلیں سن کر جج صاحبان نے سوالات تو کرنے تھے جو کہ ہر کیس میں کئیے جاتے ہیں اور یہ قانونی تقاضا بھی تھا۔ سلمان اکرم راجا کہہ رہے تھے کہ جب قانون میں اہلیت کا ذکر ہی نہیں تو نواز شریف کو نا اہلی کے بعد پارٹی صدارت سے کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ پارٹی سربراہ بننے کیلئے صادق اور امین ہونا لازم نہیں۔ جج صاحبان نے پوچھا کہ اہلیت کا ذکر نہیں تو کوئی بھی سربراہ بن سکتا ہے ؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا ہی ہے، کوئی بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کا حیران کن جواب سن کر بنچ نے استفسار کیا کہ کیاگینگسٹر اور ڈدگ اسمگلر بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟ تو سلمان اکرم راجہ نے کہا بن سکتا ہے۔ جج صاحبان کی حیرانی بڑھتی گئی تو پوچھا کہ کیا چور یا ڈکیت بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے ؟ میڈیا پر ریمارکس رپورٹ ہوئے تو ن لیگ نے بات دل پر لے لی کہ چور اور ڈکیت ہمیں کہا گیا ہے۔ ججوں کے ریمارکس کو عمران خان کی زبان قرار دے دیا گیا۔

میڈیا ٹاک، جلسوں اور اسمبلی میں ریمارکس پر تنقید ہونے لگی۔ پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہونے لگا۔ وزیر اعظم نے بھی تقریر کر ڈالی۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ چیف جسٹس کو بات واضح کرنی پڑی، صرف اس کیس میں نہیں دیگر کیسوں میں بھی چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی مگر ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر اس سے اوپر بھی ایک چیز ہے اور وہ ہے آئین۔ سپریم کورٹ بنیادی حقوق سے متصادم قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جو اس بنچ کا حصہ نہیں تھے، کو بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران کہنا پڑا کہ چور اور ڈاکو سے متعلق عدالتی ریمارکس سیاق و سباق سے ہٹ سمجھے گئے، عدالت نے کسی کو چور یا ڈاکو نہیں کہا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ بھی واضح کیاکہ انہوں نے پناما کیس میں نواز شریف کو گاڈ فادر نہیں کہا تھا،،،،

ایسی صورتحال میں ان آئینی درخواستوں پر فیصلہ کوئی آسان کام نہیں تھا جب حکمران جماعت ممکنہ فیصلے کو پارلیمنٹ کے استحقاق سے جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی اور ریمارکس پر اچھا کھیل چکی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ قانون کو کالعدم قرار دے گی تو ایک نئی بحث شروع ہو جائے گی، شور مچے گا، پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہو گا۔ مگر ایسا نہ ہوا اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال نے ایسے قانون کی واضح تشریح کر دی جس میں اہلیت کا ذکر نہیں تھا۔ عدالت نے کسی قانون یا قانونی شق کو کالعدم قرار نہیں دیا اور کہا کہ سیکشن 203 کو آرٹیکل 62، 63 اور 63اے کیساتھ ملا کر پڑھا جائے اور کہا کہ آرٹیکل باسٹھ کے تحت اہلیت پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا کیونکہ پارلیمانی نظام میں پارٹی سربراہ اپنے ارکان پارلیمنٹ کے کردار پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس فیصلے نے جہاں پارٹی سربراہ کی اہلیت کا تعین کر دیا ہے وہیں پارلیمنٹ کے استحقاق کو بنیاد بنا کر عدالتوں پر تنقید کرنے والوں کے پاس جواز بھی ختم کردیا ہے۔

عدیل وڑائچ اسلام آباد میں دنیا نیوز سے منسلک صحافی ہیں ۔ یہ تحریر عدیل وڑائچ کی فیس بک سے ان کی اجازت لے کر شائع کی جا رہی ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے