کالم

ریاض ٹھیکیدار کیلئے ملی بھگت

فروری 28, 2018 7 min

ریاض ٹھیکیدار کیلئے ملی بھگت

Reading Time: 7 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
بحریہ ٹاؤن ملک کے کسی بھی شہر میں ہے اس کی زمین متنازع ہے ۔ کہیں قبضے، تو کہیں ملی بھگت اور کہیں حکومت سے مل کر اراضی حاصل کی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ میں راولپنڈی اور کراچی کے بحریہ ٹاؤن کی اراضی کے کئی تنازعات زیرالتواء ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کو اونے پونے داموں سرکاری زمین حوالے کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت وقفے وقفے سے ساڑھے تین سال سے جاری ہے مگر مقدمہ شیطان کی آنت بنتا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے وکیلوں کے ساتھ کئی منشی بھی عدالت میں موجود ہوتے ہیں۔ ریاض ٹھیکیدار کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ فون کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اس کیس کی سماعت اس لیے بھی رپورٹ نہیں ہو سکی کہ بنچ ایک میں چیف جسٹس کی عدالت اور بنچ تین میں بحریہ ٹاؤن کا مقدمہ متوازی چل رہا ہوتا ہے، بڑی خبریں کمرہ عدالت ایک سے نکلتی ہیں، بحریہ کا کیس ٹی وی چینل اور اخبارات کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ایسے میں ہم نے آج کوشش کرکے سماعت کا گواہ بننے کی کوشش کی۔
کمرہ عدالت ایک سے دوبڑے مقدمات رپورٹ کرنے کے بعد کمرہ عدالت تین میں پہنچا تو وکیل فاروق نائیک محکمہ مال سندھ اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دلائل دے رہے تھے ۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دی گئی ہزاروں ایکڑ اراضی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے ہیں کہ دیکھنا ہوگا کہ اتھارٹی نے سونے کا تبادلہ کھنکتی مٹی سے تو نہیں کر دیا۔ پوچھا کہ کیا ہرطرح کی زمین پرائیویٹ ڈویلپر کو دیدی جائے تو اس کی مرضی ہے کہ جیسے بنائے؟

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے وکیل فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں اسی علاقے میں تعمیرات پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نوٹس جاری کیے تھے، اس زمین سے تعمیرات ہٹانے کے نوٹس نئے نہیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ اس علاقے کا کوئی ماسٹر پلان ہوگا جس کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیے گئے ہوں گے وہ منصوبہ کہاں ہے؟۔ وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت میں صاف ہاتھوں کے ساتھ آیا ہوں، ساری چیزیں اور معاملات سامنے لاؤں گا، مجھے کچھ وقت دیدیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم نے آپ کو نہیں روکا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ عدالت کو مختلف چیز بتا رہے ہیں جو متعلقہ نہیں، کس قانون کے تحت اتھارٹی کی زمین پر نجی ڈویلپر کو تعمیرات کی اجازت دی گئی؟ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ چوبیس جنوری دوہزار چودہ کو ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے ملیر اتھارٹی نے اس علاقے میں ماسٹر پروگرام اسکیم متعارف کرائی۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ماسٹر پلان اور اسکیم الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ماسٹر پلان پہلے اور اسکیم کا بعد میں بتائیں، یہ صرف نوٹی فیکیشن ہے عملی طور پر زمین پر ایسا کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ علاقے میں تعمیرات کیلئے بلیوپرنٹ، لے آؤٹ، روڈ پلان کے ماسٹر پروگرام کا عدالت کو نہیں بتایا جارہا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا بگھی کو گھوڑے کے آگے باندھاجا رہا ہے؟۔ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ وہ سارا نقشہ بھی عدالت کو دیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابھی بنائیں گے یا بنا ہوا ہے؟۔
فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت کو باربار بتارہاہوں کہ ملیر اتھارٹی نے کوئی زمین بحریہ ٹاؤن کو نہیں دی، یہ پرائیویٹ لوگوں کی زمین تھی جو بحریہ کو تبادلے میں فراہم کی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایشو یہ ہے کہ بہت بڑی زمین سندھ حکومت نے پہلے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو دی اور پھر اس کو تبادلے میں بحریہ ٹاؤن کو فراہم کیا گیا، یہ سب اس طرح ایک چھتری تان کے اس کے تلے کیا گیا۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا تبادلہ کرتے وقت سونا دے کر کھنکتی مٹی تو نہیں لے لی گئی۔
وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ یہ تاثر بالکل درست نہیں ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہمارا کوئی تاثر نہیں۔ صرف سوال کررہے ہیں،ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ سب قانون کے مطابق ہوایاکسی ایک شخص کو نوازنے کیلئے ایسا کیاگیا، ابھی ہم نے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ابھی تو ہم کوئی تاثر بھی نہیں بنا سکے، کھلے دماغ کے ساتھ دیکھ اور سن رہے ہیں۔
وکیل فاروق نائیک کاکہنا تھاکہ اس علاقے میں زمین کی قیمت دوہزار گیارہ میں مقرر کی گئی جبکہ بحریہ ٹاؤن کا پراجیکٹ دوہزارچودہ میں لایا گیا، اس کی وجوہات بھی لکھی گئی ہیں، دوہزار گیارہ میں اس حوالے سے بنائی گئی پالیسی بھی قانون کے مطابق کتاب میں ہے۔ایم ڈی اے نے ایک پبلک نوٹس بھی اخبارات میں دیاتھا کہ جن کی زمین ہے وہ اس کی ملکیت کے دعوے کے ساتھ آئیں کیونکہ اس کو تبادلے میں حوالے کیاجائے گا۔ فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ایم ڈی اے نے سات نوٹی فیکیشنز جاری کیے، ایم ڈی اے نے پرائیویٹ ڈویلپر سے مل کر اپنی اسکیم بھی لانچ کی، اس کے تحت مختلف سائز کے 25ہزار گھر بنانے ہیں۔ اس طر ح زمین کے تبادلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بھی اپنی زمینوں کے تبادلے کیے تھے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جن 25 ہزار گھروں کی اسکیم دکھائی جارہی ہے یہ صرف کاغذوں میں ہے بلکہ صرف ہوامیں ہے۔
وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ ان سب چیزوں کو بنانے کیلئے پیسہ چاہیے ہوتا ہے، چودہ ہزار ایکڑ زمین پہلے موجود تھی مگر پیسے ہی نہ تھے اس لیے جب بحریہ ٹاؤن سے زمین کا تبادلہ کیا گیا تو مہنگی زمین دے کر سستی زمین لی مگر اس کے ساتھ بحریہ نے اتھارٹی کو پونے چارارب روپے بھی دیے، اگر تبادلہ نہ کرتے تو یہ رقم نہ ملتی۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ پببلک کے مفاد میں ان پٹ استعمال ہوتا ہے آؤٹ پٹ نہیں ۔ وکیل نے کہاکہ اس سے دونوں اطراف کو فائدہ ہوا۔
فاروق نائیک نے عدالت کو بتایاکہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کا تبادلہ چاردیہاتوں/گوٹھ میں ہوا، زمین انہی دیہہ میں سے دی گئی اور ان ہی میں سے لی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ شہر کے قریب والی زمین دی گئی اور تبادلے میں دوردراز کی زمین لی گئی۔دیہہ گھاگر تو بلوچستان کے نزدیک ہے۔ وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ قومی خزانے کو اگر نقصان ہواہے تواس تبادلے میں بحریہ سے رقم بھی وصول کی گئی ہے، زمین کی قیمت دوہزار گیارہ میں کمیٹی نے طے کی گئی تھی۔فاروق نائیک نے کہاکہ اس تبادلے کے بعد بھی ملیر اتھارٹی کے پاس اتنی ہی زمین ہے جتنی پہلے تھی، ہاں البتہ یہ ضرور ہواکہ اب سستی زمین آگئی ہے مگر تبادلے میں رقم بھی ملی ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا یہ زمین اس قیمت میں ملنا چاہیے تھی؟۔ وکیل نے کہاکہ سرکاری نرخ کے مطابق ہی دی گئی۔جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ سب ایم ڈی اے نے اپنے لیے نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کیلئے کیا، ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی غلط کام نہ ہوا ہو، مگر کیا اتھارٹی نے دوردراز علاقوں میں بھی کوئی رہائشی اسیکم بنائی؟۔ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ یہاں مجھ سے ایسے سوالات بھی کیے گئے جو متعلقہ نہیں ہیں۔ بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے مسکراتے ہوئے کہاکہ آپ نے بھی بہت سے ایسے جواب دیے جوبحریہ ٹاؤن کو دینے چاہئیں تھے( فاروق نائیک ملیر اتھارٹی اور محکمہ مال سندھ کے وکیل ہیں مگر دفاع بحریہ ٹاؤن کا کرتے نظر آتے ہیں)۔
وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ سندھ حکومت کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس فیصل عرب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ وہاں نقصان کرالیتے ہیں عدالت میں آکر کہتے ہیں کہ نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ وکیل نے کہاکہ میں نے کوئی نقصان نہیں کیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ حکومت نے جب لوگوں کو زمینیں دی تھیں تو وہ زرعی ہوگی، دیہہ بھلیاری زمین کی ملکیت کیسے لوگوں کو دی گئی جبکہ یہ پتھریلی ہے، گوٹھ بھی نہیں ہے کہ آبادی کیلئے دی گئی ہو۔ فاروق نائیک نے کہاکہ یہ 1928 کی ملکیت ہے، اس وقت انگریز بادشاہ تھا جس کو مرضی جہاں ملکیت دے دی، شاید اس وقت یہ علاقہ زرعی ہو۔
فاروق نائیک نے بتایاکہ اسی طرح ڈی ایچ اے کو بھی مختلف دیہہ سے ایک لاکھ فی ایکڑ زمین دی گئی، ڈی ایچ اے کو کل چار دیہہ بیہال، آبدار،کھادجی اور کاٹھور سے زمین دی گئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دوہزار چار میں گوگل میپ آ گیاتھا، کیا اس سے چیک کیا؟ محکمہ مال نے پبلک نوٹس دیا تھا کہ لوگ اپنی زمین کی ملکیت کا دعوی کریں، بہت سے غلط دعوے داربھی آجاتے ہیں کیاگوگل میپ سے دیکھا گیا؟۔ وکیل نے کہاکہ مجھے علم نہیں، محکمہ مال سے پوچھ کر بتاؤں گا۔جسٹس فیصل عرب نے عدالت میں فاروق نائیک کے پیش کیے گئے نقشے کو دیکھ کر کہاکہ یہ تو آپ حیدرآباد، جامشورو تک پہنچ گئے ہیں۔ فاروق نائیک نے کہاکہ ملیر کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے، نوٹی فیکیشن میں کل 43 دیہہ کنٹرولڈ ایریا دکھائے گئے ہیں، ڈی ایچ اے بہت امیر آرگنائزیشن ہے، ایم ڈی اے غریب ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ بحریہ بھی غریب نہیں ہے۔ وکیل نے کہاکہ میں ایم ڈی اے اورمحکمہ مال سے بریف لے کر آیاہوں بحریہ ٹاؤن سے نہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ جن پرائیویٹ مالکان کی زمین لی گئی ان کو متبال زمین کہاں دی گئی۔ وکیل نے کہاکہ اس کا علم نہیں ہے۔وکیل نے کہاکہ ہر دیہہ کی درجہ بندی کرکے اس کی زمین کی قیمت مقرر کی گئی۔
اڑھائی گھنٹے بعد دیگر مقدمات کیلئے وقت نکالنے کی وجہ سے بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے دیگر جج صاحبا ن سے مشاورت کرکے کیس کی سماعت ملتوی کرنا چاہی تو وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ کل بنچ ایک میں مصروف ہوں، بعد میں سن لیں۔ عدالت نے چھ مارچ کی تاریخ سماعت کیلئے مقرر کی تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتزاز احسن کے معاون بیرسٹر گوہر سامنے آئے اور استدعاکی کہ مقدمے کی سماعت بارہ مارچ تک ملتوی کی جائے کیونکہ اعتزاز احسن سینٹ میں مصروف ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اعتزاز صاحب دلائل دے چکے ہیں، پھر بھی کسی بات کا جواب دینا ہو تو آپ ان کی طرف سے عدالت میں موجودرہیں، نوٹس لیں اور بعد میں تحریری جواب دیدیں۔
بیرسٹر گوہر نے بڑی کوشش کی کہ سماعت بارہ مارچ تک ملتوی کی جائے مگر جسٹس اعجاز افضل نے چھ مارچ کی تاریخ دیتے ہوئے کہاکہ اب یہ کیس مکمل ہونے کے قریب ہے۔
عدالت سے باہر آ کر محکمہ مال سندھ کے وکیل فاروق نائیک نے بحریہ ٹاؤن کے معاون وکیل بیرسٹر گوہر کی کسی بات پر مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ (جسٹس اعجاز افضل) ریٹائر ہو جائے گا کیس ختم نہیں ہوگا۔
جسٹس اعجاز افضل چار ماہ بعد 65 برس عمر ہونے پر اپنی فرائض منصبی سے سبکدوش ہو جائیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے