کالم

سینٹ الیکشن: پیپلزپارٹی پرعزم

مارچ 1, 2018 5 min

سینٹ الیکشن: پیپلزپارٹی پرعزم

Reading Time: 5 minutes

سندھ: سینیٹ انتخاب پیپلزپارٹی پرعزم ،اپوزیشن منتشر!!
عبدالجبارناصر
ajnasir1@gmail.com
ملک میں 3مارچ2018 کوہونے والے انتخابات کی تیاریاں آخری مرحلے میں ہے ۔ریٹرننگ افسران 2 مارچ کوپولینگ اسٹیشنوں کا کنٹرول سنبھالیں گے ، انتخابی عمل بظاہر شفا ف ہے اور بیشتر نشستوں کیلئے سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت اور انتخابی حکمت عملی بھی تقریباً طے ہوگئی ہے ،تاہم 21 فروری 2018 کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں ن لیگ کو بطور جماعت انتخابی عمل سے باہراورپنجاب کو مکمل اوپن کرنے کے بعد ہارس ٹریڈنگ کی جو بازگشت ہے’’ الامان والحفیظ‘‘!
سندھ میں اس وقت بھی غیر یقینی ہے ،جس کی بنیادی وجہ ایم کیوایم پاکستان کی گروپ بندی اور ن لیگ کا انتخابی عمل سے باہر کرنا ہے۔ اس وقت سندھ میں پیپلزپارٹی کے سوا کوئی جماعت، گروپ، یا امیدوار یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس کے پاس سینیٹ کی ایک یا ایک سے زائدنشستوں کیلئے مطلوبہ یا قریب تر ووٹ ہیں۔
سندھ اسمبلی میں کے 168رکنی ایوان میں 166ارکان سینیٹ انتخاب کے لئے ووٹرز ہیں ،جن میں 94پیپلزپارٹی ، 50ایم کیوایم ،9مسلم لیگ فنگشنل ، 7مسلم لیگ (ن)،4 تحریک انصاف، ایک نیشنل پیپلزپارٹی اور ایک آزاد ممبر ہے۔ پیپلزپارٹی کے 94میں سے 92 ممبران اس کے ساتھ کھڑے ہیں جس کی بنیاد پر پیپلزپارٹی 4 جنرل ایک ٹیکنو کریٹ ، ایک خاتون اور ایک اقلیتی نشست باآسانی جیت سکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کو مجموعی طور پر 105 ارکان کی حمایت ملتی ہے تو وہ مزید ایک جنرل نشست کے حصول میں کامیاب ہوگی ،جبکہ یہ تعداد111 ہونے کی صورت میں ایک ٹیکنٹو کریٹ اور ایک خاتون کی مزید نشست مل جائے گی۔یعنی سندھ سے سینیٹ کی 12میں سے 10نشستیں اس کو مل جائیں گی ۔پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کو مجموعی طور پر 120سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے،اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پیپلزپارٹی مجموعی طور پر 11نشستوں میں کامیاب ہوگی۔ بظاہر امکان یہی ہے کہ پیپلزپارٹی کیلئے 10سے زائد نشستوں کا حصول کافی مشکل ٹاسک ہے ، تاہم حکومتی جماعت ہونے، اپوزیشن کے انتشار اور خاص قوتوں کے تعاون کا بھرپور فائدہ پیپلزپارٹی کو مل سکتاہے ۔
سندھ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ایم کیوایم پاکستان اس وقت شدید خلفشار ، گروپ بندی اور مایوسی کا شکارہے۔ایم کیوایم کے ارکان اسمبلی کی مایوسی کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے اسمبلی میں آنا ہی چھوڑ دیاہے،جبکہ ایم کیوایم کے مرکزی رہنماء اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خوجہ اظہار الحسن 23فروری کے اجلاس میں واضح طور پر کہاہے کہ ایم کیوایم کے انتشار کی صورت میں وہ آئندہ اسمبلی میں آئیں گے اورنہ ہی سینیٹ کے انتخابی عمل میں شریک ہوں گے۔سندھ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق ایم کیوایم کے 50ممبران ہیں جو اس وقت6 گروپوں میں تقسیم ہیں جن میں سے12سے 15ممبران ایم کیوایم پاکستان ( فاروق ستار گروپ) ،10سے 12ایم کیوایم پاکستان(خالد مقبول صدیقی گروپ) ،7پاک سرزمین پارٹی ، 4ایم کیوایم لندن، 1پیپلزپارٹی اور15کے قریب ارکان عملًا لاتعلق ہیں۔4نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن رکھنے والی جماعت ایم کیوایم انتشارکے باعث اب اس کا کوئی بھی گروپ انفرادی طورپر ایک نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تاہم یکم مارچ کوالیکشن کمیشن میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے بہادر آباد گروپ اورڈاکٹر فاروق ستار کے بی آئی بی گروپ کی قانونی جنگ کے ممکنہ فیصلے کے بعدایم کیوایم پاکستان کی پوزیشن واضح ہوجائے گی ۔ ایم کیوایم پاکستان کے دونوں گروپ اپنی حیثیت منوانے کیلئے الیکشن کمیشن میں قانونی جنگ لڑرہے ہیں۔ بعض بزرگ اور اہم افرادمفاہمت کیلے بھی کوشاں ہیں، تاہم اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گاکہ ایم کیوایم کی آپس کی لڑائی نے اس جماعت کو مکمل طور پر سیاسی میدان میں مفلوج کردیاہے۔
ایم کیوایم کے متبادل کے طور پرپاک سرزمین پارٹی اپنے آپ کو پیش کررہی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم اور تحریک انصاف سے منحرف ہوکر پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان سندھ اسمبلی متحرک ہوئے اورسندھ اسمبلی کے اجلاس میں23فروری شریک ہورہے ہیں۔3 مارچ 2016ء سے 28دسمبر 2017ء تک منحرف ہونے والے 8 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے اور اس دوران مراعات بھی حاصل کرتے رہے۔ ایم کیوایم کے رکن محفوظ یار خان نے ان کی دوبارہ اسمبلی میں آمد پر میڈیا کے سامنے اعتراض اٹھایا اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ ان کی نشستیں ختم کی جائیں ۔قانون کے مطابق ان کی نشستوں کے خاتمے کے3 طریقے ہیں۔نمبرایک یہ کہ متعلقہ پارٹی سربراہ قوائد وضوابط پورے کرتے ہوئے ان کے انحراف سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے ، نمبر دو یہ کہ اجلاس سے مسلسل40دن غیر حاضر رہنے پر ایوان کی توجہ مبذول کرائی جائے اور ایوان نشست ختم کردے اور نمبر تین یہ ہے کہ اسپیکر غیر حاضری کا از خود نوٹس لے ۔معلوم نہیں کہ کس خوف یا کن مقاصد کیلئے گزشتہ22ماہ کے دوران یہ قانونی طریقے اختیارکرنے سے گریز کیاگیا۔اسی طرح بلوچستان میں پختو نخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن حالیہ تبدیلی کے دوران منحرف ہوا پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے قانونی راستہ اختیار کیا جس کا فیصلہ یکم مارچ کو متوقع ہے اور امکان یہی ہے کہ الیکشن کمیشن منحرف رکن منظور کاکڑکو کی رکنیت ختم کرے گا۔ سندھ کے منحرف ارکان کے حوالے سے ایم کیوایم اور تحریک انصاف کے پاس بھی یہ راستہ تھا مگردونوں جماعتوں نے خاموشی اختیار کی اب پاک سرزمین پارٹی سندھ اسمبلی کے ایوان میں سرگرم ہوگئی اور اس کے سینیٹ کے لئے 4 امیدوار بھی ہیں۔پاک سرزمین پارٹی کے پاس 8ووٹ ہیں جبکہ سینیٹ کی ایک جنرل نشست کیلئے کم از کم 21ووٹ درکار ہیں۔
سندھ میں مسلم لیگ (ف) بھی سینیٹ کی ایک نشست کیلئے کوشاں ہے ، جس کے پاس 9ووٹ اپنے ہیں ،ذرائع کے مطابق ن لیگ کی قیادت کی ہدایت پر گورنر سندھ محمد زبیر نے ن لیگی ارکان کو گورنر ہاؤس بلاکرمسلم لیگ(ف) کی حمایت کا کہا ہے۔ن لیگ کے7 ارکان میں سے ایک رکن پہلے ہی منحرف ہوکر پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکاہے جبکہ ایک رکن سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم مسلم لیگ(ف) کے اتحاد ی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ باقی5 ارکان میں سے بھی بیشتر پیپلزپارٹی کی حمایت کریں گے۔صوبے میں تحریک انصاف بھی صرف3ووٹوں کے ساتھ کم سے کم 55ووٹوں والی نشست کے لئے کوشاں ہے ۔سندھ میں یہ باز گشت بھی ہے کہ ایک ووٹ کی قیمت دو کروڑکی حد کو کراس کرچکی ہے ۔اسی طرح کی خبریں دیگر صوبوں سے بھی مل رہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ 21فروری کے عدالتی فیصلے کو بھی قرار دیا جارہاہے۔ الیکشن کمیشن اصلاحات ایکٹ 2017ء میں اتنا بااختیار تھاکہ ن لیگ کے امیدواروں کو دوسرا ٹکٹ جمع کرانے کا موقع دیتا مگر ایسا نہیں کیاگیا ۔عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کے ارکان اسمبلی پر دباؤ پڑسکتا ہے کہ وہ دیگر امیدواروں کو ووٹ دیں اور اگر بغیر دباؤ کے بھی پارٹی فیصلے سے ان ارکان نے انحراف کیا تو پارٹی کے پاس ان کیخلاف ایکشن کا کوئی قانونی جواز نہیں ہوگا۔ اسی طرح ن لیگ کے آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدواروں پر بھی یہ دبا ؤ آ سکتاہے کہ وہ کسی اور جماعت میں شامل ہوں یا اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں ۔سچ یہ ہے کہ 21فروری کے فیصلے کے بعض نکات سے سیاسی اور جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ عدالتی فیصلے میں سارے محرکات کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا اور اگروہاں اس کو مد نظر نہیں رکھاگیا تھاتوالیکشن کمیشن کو غور کرنے کی ضرورت تھی۔ اب ن لیگ کا امتحان ہے کہ وہ مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل کرسکتی ہے یا نہیں ؟ اس کے جو نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوتے ہیں وہ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں یا نہیں ؟ _

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے