پاکستان پاکستان24

توہین مذہب میں تفتیشی ناکام 

مارچ 7, 2018 2 min

توہین مذہب میں تفتیشی ناکام 

Reading Time: 2 minutes

لاہور میں توہین مذہب کے الزام میں زیرحراست انیس سالہ پطرس مسیح کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کسی بھی قسم کا ثبوت حاصل کرنے میں مکمل ناکام ہوگیا ہے، پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ چائنہ کے بنے موبائل کا پاس ورڈ کھولنے میں بھی ناکام ہو گیا ہے ۔ جبکہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر خالد سعید کے غیر انسانی سلوک سے تنگ آکر لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت کی چوتھی منزل سے کودنے والے اٹھائیس سالہ ساجد مسیح کے معاملے کی انکوائری بھی مکمل نہیں ہوسکی۔

ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرکے پولیس کی طرح صرف تشدد کرکے معلومات حاصل کرنے اور ملزمان سے اعتراف کرانے کی کوشش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ پاکستان 24 کے پاس دستیاب اہم معلومات کے مطابق ایف آئی اے کے اعلی حکام اپنے تفتیشی افسر خالد سعید کو بچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

چوبیس فروری کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے چیف جسٹس ثاقب نثاراور اعلی سرکاری حکام سے نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔ اس کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ بھی دائرکی گئی تھی جس پر ایف آئی اے کے سربراہ کو نوٹس بھی جاری کیا گیاہے۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن سے جب سپریم کورٹ میں صحافیوں نے پوچھا کہ ساجد مسیح کو انصاف کب ملے گا تو انہوں نے کہاکہ انکوائری جاری ہے اور تین چار دن میں رپورٹ آجائے گی تاہم انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ ساجد مسیح پر تشدد کیا گیا یا اسے اپنے کزن کے ساتھ بدفعلی پر مجبور کیا گیا ۔ ڈی جی ایف آئی اے نے اصرار کیاکہ ساجد مسیح کے موبائل فون میں توہین آمیزمواد موجودتھا اس لیے اس نے ایف آئی اے کی عمارت سے کود کر جان دینے کی کوشش کی ۔

پاکستان 24 کے مطابق ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ کیسے ثابت ہوا کہ موبائل فون میں ایسا مواد موجود تھا تو ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون ایسے مواد سے بھرا ہوا تھا، جب ملزم سے کہا گیا کہ پاس ورڈ بتائے تو اس نے انکار کیا۔ جب اس سے موبائل فون لیاگیاتو اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگادی ۔ ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا گیا کہ کیا موبائل کو کھولا جا چکا ہے؟ تو انہوں نے کہاکہ فون چائنہ کاہے اس لیے ایسا نہیں کیا جا سکا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ موبائل فون ابھی تک کھولا نہیں جاسکا تو پھر وہ کیسے دعوی کرتے ہیں کہ فون میں توہین آمیز مواد ہے تو ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور مذہب کی توہین سے متعلق ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا گیا کہ کیا اپنی حراست میں کسی ملزم کو تحفظ دینا ان کے ادارے کا کام نہیں، اور کیا کسی ملزم کے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے کا ذمہ دار ایف آئی اے نہیں؟ تو ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا گیا کہ کیا تفتیش کی ویڈیو بن رہی تھی، کیا سجاد مسیح کو کھڑکی سے دھکا دیا گیا یا اس نے خود چھلانگ لگائی تو انہوں نے ویڈیو بننے کا جواب نہیں دیا اور کہا کہ سجاد مسیح نے موبائل فرانزک کیلئے دینے کے بعد چھلانگ لگائی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے