کالم

وزنی بیگ نہیں معیاری تعلیم

مارچ 23, 2018 3 min

وزنی بیگ نہیں معیاری تعلیم

Reading Time: 3 minutes

سہیر حسن

اس ملک میں تقریباً 44 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں ۔ اور جو سکولوں میں ہیں ان میں سے صرف چند ہی کو معیاری تعلیم  ملتی ہے ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کے بڑوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں ۔ ان کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے سوچنے یا اقدامات کرنے کا وقت کب ملتا ہے ۔

یہی حال ہمارے میڈیا کا بھی ہے، ان کو چٹ پٹی خبروں اور سیاست دانوں کے جلسے اور تقاریر دکھانے اور ان پر بحث کرنے سے فرصت کہاں ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شاذ و نادر ہی ٹاک شوز میں تعلیم کا موضوع زیر بحث آتا ہے ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ گزشتہ کئی دنوں سے ٹاک شوز میں سکول کے بچوں کے بیگ کا وزن زیر بحث ہے ۔ شاید یہ بھی ایک خبر ہے کہ زیادہ وزنی بیگ کی وجہ سے بچے کی صحت خراب ہو جاتی ہے ۔

اس سے بڑی خبر یہ بھی آئی تھی الف اعلان تنظیم کے مطابق خیبر پختون خوا میں اب بھی 50 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں ۔ لیکن اس پر بات کرنے کیلئے ٹاک شو والوں کے پاس وقت نہیں تھا ۔ یا انہوں نے اس خبر کو زیادہ اہم نہیں سمجھا ۔  یہ الگ بات ہے کہ ملک کے بیشتر سکول چار دیواری کے بغیر ہیں، اور کہیں تو سکول میں بھینسیں اور دیگر جانور کھڑے دیکھے جا تے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی اور واش روم تو شاید قسمت والے بچوں کے سکول کو ہی ملتا ہے ۔

سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی استعداد کی بات نہ کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ بشتر سکولوں میں شاید چار پانچ کلاسوں کے لیے ایک ہی استاد ہوتا ہے ۔ نصاب پر توجہ اور اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا کسی حکومت کی شاید ہی ترجیح رہی ہو، تعلیمی اداروں میں عدم برداشت کی واقعات کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جامعات کا تعلیمی نظام بھی زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ ہمارے جامعات سے جو طالب علم فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مستقبل میں کیا کرنا ہے ۔

پاکستان میں اعلی تعلیم کی شرح بہت ہی کم ہے ۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں لیڈر شپ، سیاست اور اعلی عہدے کیوں مورثی بنیادوں پر جائیداد کی طرح چند لوگوں کی اولادوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اکژیتی علاقوں میں تو اعلی تعلیم ایک خواب ہی ہے ۔ ملک میں شرح خواندگی 60 فیصد بتائی جاتی ہے اور شرح خواندگی اس طرح ماپی جاتی ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنا نام لکھ پڑ ھ سکتا ہے تو وہ تعلیم یافتہ ہے۔

پاکستان میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ قابلیت یا معیار تعلیم و ذہانت کو انگریزی زبان پر عبور سے ہی جانچا جاتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ میڈیکل اور انجنیرنگ کی تعلیم کو ہی معاشرے کے تمام مسائل کا علاج سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کو ہی دنیا و اخرت کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے ۔

اس ملک میں غریب کا بچہ بغیر کرسی بنچ والے ٹاٹ سکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے جبکہ متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتا ہے ۔ پیسے والے اپنے بچوں کو بورڈنگ سکول  بھیج دیتے ہیں اور اشرافیہ کے بچے مخصوص اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ نظام تعلیم میں یہی اونچ نیچ اور خرابیاں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بیماریوں میں سے ہیں ۔ زیادہ تر بنیادی مسائل اسی وجہ سے ہیں ۔

انتہا پسندی، غربت اور عدم برداشت پر قابو پانا ہے تو تعلیم اور نظام تعلیم پر توجہ دینا ہوگی۔ تعلیم کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کرنا ہوں گی ۔ دوہرے نظام تعلیم کو ختم کرنا ہوگا ۔ آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے لازمی بنیادی تعلیم کا حصول سب کی لیے مفت اور سہل بنانا ہوگا ۔ یہ ہوگا تو ہم بچوں پر وزنی بیگ لادنے کے بجائے ان کے ذہنی اور فکری ارتقا پر توجہ دے سکیں گے ۔

Array
One Comment
  1. علی صدیقی
    بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ لوگ۔ اللہ اور عطاء فرمائے۔ آمیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے