پاکستان پاکستان24

بحریہ ٹائون کیس فیصلہ محفوظ

مارچ 27, 2018 3 min

بحریہ ٹائون کیس فیصلہ محفوظ

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے تین سال تک سماعت کرنے کے بعد بحریہ ٹاون کراچی کو زمین کی الاٹمنٹ میں بے ضابطگی کے ازخود نوٹس میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی عدالتی بنچ نے بڑے وکیلوں کے طویل دلائل سنے ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق بحریہ ٹاون کے وکیلوں علی ظفر اور اعتزاز احسن نے عدالتی کارروائی کو طول دینے کے لیے درجنوں بار سماعت ملتوی کرنے کی درخواستیں دیں اور کئی پیشیوں پر کارروائی ہوئے بغیر ہی مقدمہ ملتوی کیا گیا ۔ گزشتہ برس عدالت نے مقدمے کو دس ماہ کے وقفے کے بعد سماعت کیلئے مقرر کیا ۔

گزشتہ دو ماہ کے دوران وقفے وقفے سے کیس کی طویل سماعت ہوئی اور بحریہ ٹاون کے وکیلوں نے اپنے دلائل مکمل کئے ۔ جس کے بعد محکمہ مال سندھ اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے دلائل دیے ۔

عدالت کو ایک درخواست گزارنے بتایا کہ زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہائوسنگ اسیکم کے لیے حاصل کی، لیکن اس سے قبل ہی مالکان کو نوٹس کرکے رقوم کی پیش کش کی گئی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ آپ زمین مالک ہیں، کیا غیرقانونی قبضے کے وقت قانون کے مطابق آپ مالکان نے متعقلہ فورم یا عدالت سے رجوع کیا۔ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ تمام حقائق پہلے سے ہی عدالت کے سامنے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ نیب کی جانب سے کون پیش ہو رہا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق بحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنی نششت سے اٹھ کر اعتراض کیا اور کہا کہ نیب کا اس مقدمے سے کیا کام ہے، ان کا کوئی حق نہیں کے رائے دیں یا تفتیش کریں، یہ اس کیس میں فریق نہیں ہیں، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہمیں تفتیشی افسرکوسن لینے دیں، آپ کا اعتراض نوٹ کرلیا گیا ہے۔

نیب کے تفتیشی افسرقمر عباس نے عدالت کوبتایا کہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بحریہ ٹائون نے پہلے اشتہاردیا اور ساتھ زمین کی خریداری شروع کی، جو زمین دوہزار پانچ جنوری میں عوام کے لیے مختص کی گئی تھی اس کا تبادلہ دوہزار چودہ پندرہ کے دوران بحریہ ٹائون سے کیا گیا اور اس میں شرائط عائد نہ کی گئی، حالانکہ یہ زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دوہزار پندرہ میں الاٹ ہوئی تھی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق  تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سندھ حکومت سے زمین بعد میں لی اور تبادلہ پہلے ہی بحریہ ٹائون سے کردیا، تفتیشی افسر نے کہا کہ بحریہ ٹائون کو 43 دیہاتوں کی زمین دی گئی لیکن یہ سب خلاف قانون ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بھی اس دوران 16 دیہاتوں کی زمین دی گئی لیکن خلاف قانون ہونے پر نوٹی فیکشن منسوخ کردیا گیا۔ بحریہ ٹائون کے معاملے میں نوٹی فیکشن کو دوبارہ جاری کرکے قانونی بنانے کی کوشش کی گئی۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ اس زمین کے لیے ریگولیشن دوہزار چھ اور دوہزار تیرہ میں بنائے گئے، کہا گیا کہ ملیر اتھارٹی نے اگرماضی میں کوئی ہائوسنگ سوسائٹی بنائی ہے توزمین مالکان کو متبادل پلاٹ دیے جائیں گے، جبکہ یہاں تو ابھی بحریہ ٹائون بنا ہی نہیں تو پہلے سے اس کا اطلاق کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق تفتیشی افسرنے کہا کہ اگریہی پرایکٹس ہے تو پھر اللہ جانے کیا ہوگا۔ نوٹی فیکشن میں لکھا ہے کہ اس زمین کو سرکارکا ہی سمجھا جائے، رجسٹریشن کے قوانین پر بھی عمل نہیں کیا گیا، ایک دن نوٹی فیکشن نکالا اور اگلے روز بحریہ ٹائون کا اشتہارآیا کہ حکومت نے 43 دیہاتوں کے لیے ماسٹرپلان پروگرام منظورکرلیا ہے، لوگ اپنی زمین ملکیت کے کاغذات لے کر ڈی سی کے دفترآجائیں

پاکستان ۲۴ کے مطابق تفتیشی افسرکے بیان کے بعد سندھ حکومت کے وکیل فاروق نائیک اپنی نششت سے اٹھے اور کہا کہ نیب کا افسر طریقہ کار اور تکنیکی غلطیوں کی بات کر رہے ہیں، یہ اس الاٹ منٹ میں مجرمان غلطی کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہیں ۔ بحریہ ٹائون کے وکیل بھی اپنی نششت سے اٹھے اور کہا کہ تفتیشی افسرنے جوباتیں کیں ہیں وہ باتیں سمجھنے میں غلط ہیں کیونکہ انہوں نے سندھی کا ترجمہ نہیں پڑھا جوہم نے لگا ہے، چونکہ تبادلہ ہوا ہے اس کو لکھا گیا ہے کہ سرکار کا ہی سمجھا جائے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ خاطر جمع رکھیں، ہم نے تمام حقائق کا جائزہ لینا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ قاضی شہریار عدالت کے طلب کرنے پر روسٹرم پر آئے اور موقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور اعتزاز احسن نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ان کو نہ سنے ۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت وکیل فاروق ایچ نائیک ہیں ۔ عدالت ان کے طویل دلائل سن چکی ہے، ان کا موقف ہی حتمی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے اعتزازاحسن کو کہا کہ آپ تشریف رکھیں ہمیں سن لینے دیں، تاہم اعتزاز احسن پندرہ منٹ تک عدالت اورایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے درمیان حائل رہے۔ اعتزازاحسن کے تھک جانے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت کی اجازات ملنے پر بولے کہ میں سندھ حکومت کے وکیل فاروق نائیک کے تمام دلائل کی تائید کرتا ہوں، ان سے متفق ہوں اور اپناتا ہوں۔

جس کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے