کالم

شاہد خاقان فریادی

مارچ 31, 2018 2 min

شاہد خاقان فریادی

Reading Time: 2 minutes

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اپنے الفاظ پر قائم ہوں، اب بھی صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ نہیں مانتا، اس جملے سے کئی اہم پہلو جڑے ہیں۔

اس بیان پر اپوزیشن جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف نے کچھ ًاوور رئیکٹ ً کیا ، اور اعلان کیا کہ اس پر تحریک چلائی جائے گی اس معاملے پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا، پاکستان تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اس بیانیے سے وہ نواز شریف کے بیانیے مجھے کیوں نکالا جیسی شہرت حاصل کر لیں گے تو یہ خام خیالی ہے، اور اگر ایسا لگتا ہے کہ اس سے وہ خود کو جمہوریت پسند ثابت کر لیں گے تو ایسا بھی ممکن نہیں۔

وزیراعظم کے اس بیان کے بعد ان کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ وزیراعظم جو نواز شریف کو اپنا وزیراعظم مانتا ہے اس سے ایسی ہی بات کی توقع ہے ، کیونکہ جو شخص اپنے عہدے کا وقار برقرار نہیں رکھنا چاہتا وہ بھلا چیئرمین کے عہدے کا وقار کیسے سمجھ سکتا ہے۔ کسی کی رائے یہ بھی ہے کہ ووٹ کے تقدس کی بات کرنے والی جماعت چیئرمین سینٹ کے ووٹ کا احترام کیوں نہیں کرتی۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ چیئر مین سینیٹ جو آسمان سے ایک دم نازل ہوا ہو اور اس کے انتخاب کے روز میر حاصل بزنجو اپنے کندھوں کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ اراکین نے بتایا کہ ان پر بہت دباوٗ تھا۔ تو وزیراعظم ایسے چیرمین کو مانے یا نہ مانے ، مگر ایسے چیئر مین کو،

میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا ۔

بہرحال آگے بڑھتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے فرمایا کہ , میں جج ہوں میرے پاس آنے والے سائل کی فریاد سننا پڑتی ہےِ, مجھے علم نہیں کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا، نہ کوئی قیاس آرائی کرنا چاہتا ہوں مگر زرا سوچئے ، اپوزیشن جماعتیں کمال کے الزامات لگا رہی ہیں اور ماضی کو دیکھتے ہوئے ایسے الزامات اور ان میں صداقت خارج از امکان نہیں ، الزام ہے کہ کسی این آر او کی خاطر یہ ملاقات ہوئی، ہو بھی سکتی ہے، یعنی اگر اپوزیشن جماعتوں کے الزام کا جائزہ اس ملاقات کے تناظر میں لیا جائے تو این آر او کے دو فریق ہیں، عدلیہ (نمائندہ ،چیف جسٹس) اور ن لیگ(نمایندہ ،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی) لیجئیے جناب ، اگر ایسا ہے تو این آر او جس سے ن لیگ کے سارے گناہ معاف کروانے کی کوشش کی جائے گی ، کیا اس این آر او کے کروانے میں چیف جسٹس صاحب بھی شامل ہیں؟

یعنی موروثی سیاست کے سخت مخالف اور بھٹو کو زندہ رکھنے والے جو دن رات ن لیگ پر عدلیہ مخالف بیانات کا (انتہائی مناسب) الزام لگاتے ہیں ، وہ خود توہین عدالت کے مرتک ہو رہے ہیں ۔ اور چیف جسٹس پر این آر او میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہےکہ چیف صاحب کے بیانات اور وضاحتیں بڑھتی جا رہی ہیں بہرحال یہ ان کی صوابدید ہے مگر چیف جسٹس جیسے عہدے کو ایسے بیانات اور پھر ان پر وضاحتیں زیب نہیں دیتیں۔ سمجھ نہیں آتا کہہ چیف جسٹس صاحب ایسے بیانات کیوں دینے لگے ییں جس پر انہیں بعد میں وضاحتیں دینا پڑیں۔ اور چیف جسٹس صاحب نے وزیراعظم کو براہ راست فریادی نہیں کہا مگر یہ ان کو بھی معلوم کہ ان کے جملے کی تشریح سے شاہد خاقان عباسی کو ہی فریادی کہا گیا ہے۔ ایسا کہنا انتہائی غیر مناسب ہے اور چیف جسٹس کے عہدے کے شایان شان نہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے