کالم

ناقابل اشاعت ریفرنس

اپریل 5, 2018 8 min

ناقابل اشاعت ریفرنس

Reading Time: 8 minutes

ارشد وحید چوہدری
ان سطور کو تحریر کرنے سے پہلے میں وضاحت کر دوں کہ میرا تعلق جس میڈیا گروپ سے ہے وہ اکثر زیر عتاب رہتا ہے، وجوہات کیا ہوتی ہیں اس سے بعض افراد کو اختلاف ہو سکتا ہے اس لیے اس بحث میں پڑے بغیر یہ گوش گزار کرا دوں کہ یہ کالم میں بطور کالم نگار جنگ یا نمائندہ خصوصی جیو نیوز ہرگز نہیں لکھ رہا بلکہ سوشل میڈیا کے لیے یہ مضمون اپنے ضمیر کی آواز پر صرف ایک صحافی کے طور پہ لکھ رہا ہوں ۔

ضمیر کی آواز پہ لبیک کہنے کی وجہ یقینا سچ کو قوم کے سامنے پیش کرنا ہے جو بعض اوقات اتنا کڑوا ہو جاتا ہے کہ میڈیا بھی اس کے ذائقے کی ترشی کو برداشت کرنے سے گریز کرنے میں ہی عافیت جانتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں بعض اوقات اس طرف جانے سے میڈیا کے بھی پر جلتے ہیں جہاں سامنے سیاست دانوں جیسے تر نوالہ نہیں ہوتے بلکہ دیگر ’ماورائی‘ مخلوق سے ٹکرانے کا خطرہ ضرورلاحق ہوتا ہے ۔  بطور ایک باخبر صحافی گزشتہ روز  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کوہاٹ احمد سلطان ترین کی طرف سے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے خلاف تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ایک ریفرنس کا علم ہوا۔ اس کی ایک سافٹ کاپی ملی تو یہ اس حوالے سے انتہائی غیر معمولی لگا کیونکہ  یہ ریفرنس عدالت عظمی کے چیف جسٹس کے خلاف ایک ماتحت عدالت کے جج کی طرف سے بھیجا گیا تھا جو ملکی عدالتی تاریخ کا بھی ایک انوکھا واقعہ تھا ۔ جیسے جیسے اس ریفرنس کو پڑھا تو یہ ادراک ہوا کہ یہ کسی جذباتی فیصلے یا ہنگامی اقدام کے زیر اثر تحریر نہیں کیا گیا بلکہ یہ ملک کی حالیہ صورتحال اور اعلی عدلیہ بلخصوص چیف جسٹس آف پاکستان کے طرز عمل کے تفصیلی مشاہدے اور عرق ریزی کا نچوڑ ہے۔

بطورصحافی انتظار کیا کہ شاید کوئی ضمیر کا قیدی انصاف کا یہ مقدمہ کسی ٹی وی اسکرین یا کسی اخبار میں پیش کرے لیکن ’توہین عدالت‘ کا خوف غالب رہا اور یہ غیر معمولی ریفرنس بطور خبر بھی میڈیا میں کہیں جگہ نہیں پا سکا، دوسری طرف زنجیر عدل ہلانے پہ اس معزز جج کو فوری طور پہ ان کے عہدے سے ہٹانے اور او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔ سوشل میڈیا پہ ان احکامات کی بازگشت سنائی دی تو انصاف کے ساتھ ،آزادی اظہار اور جمہوریت کا مقدمہ لڑنے سے رہا نہیں گیا اور اپنے حصے کی شمع جلانے کے لیے لیپ ٹاپ سنبھال لیا۔ کوہاٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج احمد سلطان ترین  نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس میں جوڈیشل ایکٹوازم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے طرز عمل کو بنیاد بنایا ہے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے عدالت عظمی کی فعالیت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے لکھا ہے کہ بلا شبہ جوڈیشل ایکٹوازم عدلیہ کا ایک شاندار تصور پیش کرتا ہے لیکن اس کے مثبت یا منفی ہونے کا انحصار اس کے پیچھے موجود فرد کے ایجنڈے پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں افتخار چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوازم کو عوام نے ابتدا میں اس لیے پذیرائی بخشی کیوںکہ اس کی بنیاد عوام کی طاقت تھی جو ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی کے خواہاں تھے لیکن اس تاریخی موقع کو ضائع کر دیا،عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی بجائے ذاتی تشہیر کے ذریعے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ،سپریم کورٹ اپنے آئینی نام کی بجائے ؛چوہدری کورٹ؛ کی شناکت سے پہچانی جانے لگی۔ مقدمات کو جلد نمٹانے اور عوام کو سستا اور تیز انصاف فراہم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009 بھی ناکامی سے دوچار ہو گئی اور معاملات سوموٹوز کے ذریعے چلائے جاتے رہے،نتیجہ جیسے ہی افتخار چوہدری رخصت ہوئے سپریم کورٹ کے لیے عوامی طاقت بھی ختم ہو گئی اور لوگ جان گئے کہ امید کے نام پہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے ۔ احمد سلطان ترین نے اپنے ریفرنس میں حالیہ جوڈیشل ایکٹوازم کا خاکہ بیان کرتے لکھا کہ موجودہ چیف جسٹس نے شاید تاریخ سے غلط رہنمائی لیتے ہوئے عدالتی اختیار کو عوامی طاقت کے ذریعے موثر بنانے پہ عمل کرتے ہوئے اس جوڈیشل ایکٹوازم کو اپنا لیا جس کا مقصد سماجی تبدیلیاں یا بھولے ہوئے وعدوں کی تکمیل نہیں بلکہ آئندہ ایسے آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے ذریعے حکومت کا قیام ٹھہرا جس میں ان کا بھی کردار موجود ہو۔ ایسا انہوں نے اپنے انٹرویوز میں سے ایک میں خود آن رکارڈ بیان کیا ہے۔ احمد سلطان ترین کہتے ہیں کہ افتخار چوہدری کے ایکٹوازم کی عوام اخلاقی حمایت کرنے کے پابند تھے کیونکہ ان کے سامنے ایک مقدس امید یا وجہ پائی جاتی تھی اور موجودہ چیف جسٹس نے جب دیکھا کہ ان کے اقدامات کوعوام کی حمایت حاصل نہیں ہے تو انہوں نے خود عوام سے رجوع کرنا شروع کر دیا اور ایسا طرز عمل ضابطہ اخلاق کے تحت ان کے حلف  کے بھی منافی ہے جس کی پاسداری کے وہ پابند ہیں۔ عوامی تنقید کی متعدد مثالوں میں سب سے اہم وہ تنقید ہے جو ان کے طرز عمل پہ ؛بابا رحمتے؛ کے نام سے کی جاتی ہے لیکن یہ نام بھی انہیں کسی اور نے نہیں دیا بلکہ خود انہوں نے ایک سیاسی مقدمے میں کیے گئے فیصلے کو عوامی فورم پہ دفاع کرتے ہوئے لوگوں کے منہ میں ڈالا۔ ریفرنس میں چیف جسٹس کی طرف سے توہین عدالت کے نوٹسز پہ بھی سخت تحفظات ظاہر کرتے لکھا گیا ہے کہ عوامی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نوٹسز بھی ؛سیلیکٹو؛بنیادوں پہ لیے جاتے ہیں،  نہال ہاشمی کی مثال دیتے ہوئے تحریر کیا گیا کہ  توہین عدالت کے مرتکب کئی افراد کے خلاف کاروائی شورع کی گئی لیکن توہین عدالت کرنے کے مرتکب اس مرکزی  شخص کے خلاف نوٹس نہیں لیا گیا جو ایک منظم مہم کے ذریعے عوامی عدالت بمقابلہ سپریم کورٹ کے تصور کو پیش کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح چیف جسٹس کے غیر دانشمندانہ اقدامات کی بدولت اوپر سے نیچے تک پوری عدلیہ ساکت ہو چکی ہے، چیف جسٹس اخلاقی لحاظ سے بہت کمزور ہیں کیونکہ وہ اپنے کہے الفاظ پہ بھی قائم نہیں رہتے اور تقریبا روزانہ  قسمیں کھا کر وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان پہ اور پاناما مقدمہ سننے اور فیصلہ دینے والے ججز بارے تنقید جاری ہے لیکن وہ کسی دلیل یا توہین عدالت کی کاروائی کے ذریعے اس پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج احمد سلطان ترین  نے چیف جسٹس کی ذاتی تشہیر کے مقاصد پہ بھی سخت تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب راز نہیں رہا،انہوں نے اس خواہش کو ریفرنس میں ہی  شاعری کے ذریعے یوں بیان کیا ہے کہ
اک زہر بھرا ناگ ہے شہرت کا جنوں بھی
ڈس جائے یہ موذی تو سنبھلنے نہیں دیتا
اسی ریفرنس میں احمد سلطان ترین نے باور کرایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ذاتی ایجنڈے کا  نوٹس نہ لینے کاخمیازہ پوری عدلیہ آج بھی بھگت رہی ہے،جبکہ ضلعی عدلیہ تو دل گرفتہ کر دینے والے مسائل کا سامنا کر رہی ہے،ان کا اشارہ یقینا ایسے بعض وکلاء کی طرف ہے جو افتخار چوہدری کے دور سے ایسے منہ زور ہوئے کہ آج تک انہیں نکیل نہیں ڈالی جا سکی۔ موجودہ چیف جسٹس کے طرز عمل کا ذکر کرتے احمد سلطان ترین نے ریفرنس میں لکھا کہ وہ ان بیشتر خصوصیات سے عاری ہیں جو ضابطہ اخلاق کا آرٹیکل دو کسی بھی جج سے تقاضا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ان کے خلاف ستائیس مارچ کو ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کر چکی ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کو غیر عدالتی اور لاپروہی پہ مبنی قرار دیتے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ادا کردہ الفاظ پہ وضاحتیں دئیے بغیر قائم بھی نہیں رہتے،سپریم کورٹ عوام کی انساف کے لیے آخری امید ہوتی ہے اس لیے چیف جسٹس کو اپنے بیانات میں اتنا غیر ذمہ دار نہیں ہونا چاہئیے اور اگر وہ روایات سے ہٹ کر بات کرتے ہیں تو عوام سوچیں گے کہ وہ صرف توجہ چاہتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل ایک اچھے جج جیسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے سیاسی ایجنڈے کا ذکر کرتے ریفرنس میں کہا گیا کہ انہوں ںے ایک ڈرگ کیس میں قسم کھا کر کہا کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے لیکن اسی وقت انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ عوام کو صاف پانی ،بنیادی اشیائے ضروریہ اور خوراک کی فراہمی چاہتے ہیں،اگر ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تو وہ عوام کے لیے ان اشیاء کی فراہمی کی خواہش کی بجائے (جو کہ ان کے دائرہ کار میں بی نہیں آتا) انہیں عدالتی نظام کی اس ناکامی پہ غور کرنا چاہئیے جو آئین کے آرٹیکل دس اور سینتیس کے تحت عوام کو انصاف فراہم نہیں کر سکا، لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ عدالتیں آئینی ضروریات کے مطابق انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ معزز جج نے یہ نشان دی بھی کی کہ ہر وقت ایگزیکٹو کو ان کی ناکامیوں پہ الزام دینے کی بجائے انہیں اپنے اس حلف کی پاسداری کرنی چاہئِے جو اعلی عدلیہ کے ججز سے ایک خاص کارکردگی کے حامل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی میں ناکامی کا احساس کرنے کی بجائے انہوں نے  انیس مارچ دو ہزار اٹھارہ کو صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری کو دئیے گئے انٹرویو میں دیگر آئینی اداروں کا کردار سنبھالنے کا عندیہ دیتے ہوئے اپنے سیاسی ایجنڈے کا اعلان کر دیا۔ اس غیر معمولی ریفرنس میں وزیر اعظم سے ملاقات کو بھی آئین کی خلاف وری قرار دیتے کہا گیا ہے ایجنڈے کو بتائے بغیر یہ ملاقات نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ تنقید کا یہ موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ وہ شریف فیملی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات طے کرانے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس تنقید کے دباو میں انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات بارے جو ریمارکس دئیے ان سے ایک نئے تنازعے نے جنم لیا حتی کہ رجسٹرار آفس کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔ کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیتے بتایا گیا کہ ایک جج کے حصے میں اس کی حیثیت کے مطابق جو شہرت ملتی ہے وہی اس کا حاصل ہے اس سے زیادہ کا اسے تقاضا نہیں کرنا چاہئِے اور نہ ہی اسے سیاسی سوالات میں الجھنا چاہئیے لیکن چیف جسٹس کے خلاف بے شمار مواد موجود ہے کہ انہوں نے نہ صرف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بلکہ سپریمکورٹ کو بھی تنازعات اور سیاسی سوالات میں الجھایا۔ چیف جسٹس اپنے برملا ،لاپرواہ اور غیر عدالتی جملوں کے باعث  نہ صرف سیاست دانوں  سے تنازعات میں گھر چکے ہیں بلکہ شہرت کے خبط میں مبتلا ہو کر وہ عدلیہ کی عزت میں کمی کی قیمت بھی چکا رہے ہیں۔ سیاسی ایجنڈے کے ذریعے دوسرے آئینی اداروں کی حدود میں مداخلت کا طرز عمل ان کے حلاف کے بھی منافی ہے۔ احمد سلطان ترین نے سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے 14 سوالات کے جوابات حاصل کئے جائیں۔
1۔ کیا چیف جسٹس آئین کے تحت عوام کو تیز اور سستا انصاف فراہم کر رہے ہیں؟
2۔ کیا وہ فوجداری نظام انصاف کے ویژن پہ قائم ہیں؟
3۔ اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کئیے بغیر کیا چیف جسٹس پاکستان سیاست دانوں اور افسران سےباز پرس کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں؟
4۔ کیا چیف جسٹس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سیاسی ایجنڈے کی پیروی کر رہے ہیں؟
5۔ کیا چیف جسٹس کو ذاتی تشہیر مقدم ہے؟
6۔  کیا چیف جسٹس اپنی تقاریر،بیانات،ریمارکس اورانٹرویوز میں سچائی کا پرچار کرتے ہیں،ان کی قسمیں کھانا غیر اہم ہے؟
7۔ کیا چیف جسٹس اپنے طرز عمل سے سپریم کورٹ کے ججز میں دراڑ نہیں ڈال رہے؟
8۔ کیا سیاسی تنازعات کے ماحول میں ایجنڈا ظاہر کیے بغیر وزیر اعظم سے ملاقات درست عمل ہے؟
9۔ کیا قتل کے ملزم راو انوار سے رابطے کا طریقہ کار جج کے طرز عمل سے مطابقت رکھتا ہے؟
10۔ راو انوار کو فراہم کردہ دوستانہ ماحول کیا ایک جج کے حلف اورطرز عمل کے مطابق ہے؟
11۔ کیا لیڈر کو چھوڑ کر اس کے مہروں کے خلاف توہین عدالت کی کاروائیاں درست ہیں؟
12۔ کیا ان کی زبان اور رویہ درست ،محتاط اور کسی غرض سے مبرا ہوتا ہے؟
13۔ کیا عوامی تنقید چیف جسٹس کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا شاخسانہ نہیں؟
14۔ کیا چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری کے مطابق مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کی ذیلی دفعہ چھ کے تحت کاروائی نہیں ہونی چاہئیے ؟
ڈسٹڑکٹ اینڈ سیشن جج احمد سلطان ترین نے ریفرنس کا اختتام اپنی مادر وطن کے لیے اس دعائیہ شعر کے ساتھ کیا کہ
امن ملے تیرے بچوں کو اور انصاف ملے
دودھ ملے چاندی سا،پانی اجلا صاف ملے
معزز جج کی معطلی کے بعد اس ریفرنس کا فیصلہ چاہے جو بھی ہو لیکن اس کالم کا مقصد اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اس ریفرنس کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھنا ہے کیونکہ یہ صرف ایک ریفرنس نہیں بلکہ انصاف اور جمہوریت کا مقدمہ بھی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے