متفرق خبریں

ابصار عالم کا چیف جسٹس سے مکالمہ

اپریل 5, 2018 2 min

ابصار عالم کا چیف جسٹس سے مکالمہ

Reading Time: 2 minutes

میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم  کے درمیان مکالمہ ہوا ہے ۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا قانون کے سیکشن 5 میں ترمیم کر کے اس کو آرٹیکل 19 کے مطابق رکھیں گے تاکہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ترمیم کیا تجویز کی؟ سیکشن 5 میں ترمیم کا مسودہ عدالت کو بھی فراہم کریں، ترمیم کا مسودہ فریقن کو بھی فراہم کریں، مزید سماعت پیر کو کر لیں گے ۔

درخواست گزار حامد میر نے کہا کہ کل وزیر اطلاعات نے ملاقات کی، حکومت کو بتا دیا کہ میری کسی سے لڑائی نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کو کلئیر کرلیا ہماری بات نہیں کی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی لڑائی ہے؟ ۔ حامد میر نے کہا کہ آپ کی تو بالکل لڑائی ہو ہی نہیں سکتی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت کو صرف اپنا بتا رہے ہیں ۔

عدالت کو درخواست گزار ابصار عالم نے بتایا کہ چھبیس چینلز میں سے صرف چھ اینکر کا ایشو ہے، پیمرا اور چینلز کا جھگڑا ہمیشہ کوڈ آف کنڈکٹ ہر ہوتا ہے ۔ ابصار عالم نے کہا کہ میرے حوالے سے عدالت میں غلط بیانی کی گئی، گزشتہ روز یہاں عدالت میں کہا گیا کہ ابصار عالم نے بطور چیئرمین کالے قوانین کا مسودہ پارلیمانی کمیٹیوں کو دیا، سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو گمراہ کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی براداری ٹی وی پر بیٹھی ہے جا کر کارروائی کریں، خود بات کریں ۔ ابصار عالم نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے شکایت کی کہ عدالت میں کہا گیا ابصار عالم نے خلاف ورزی کرنے والے اینکرز کو 30 سال کی سزا تجویز کی، کیا میری کوئی عزت نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چھوٹے مسئلوں میں نہیں پڑیں گے، آپ کا اعتراف کرتے ہیں، آپ بہت اچھے ہیں، میں نے اپنے اندر سے سانپ مار دیا تو بہت مسئلہ حل ہوئے، کبھی کبھی سانپ کہتا تھا کسی نہ کسی کے خلاف کارروائی کروں، سانپ مار دیا اب سکون ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سال کے لیے کوشش کی ہے اس سانپ کو نکال دیا، آپ سے بھی یہی گزارش ہے، اگر انا کو خود سے نکال دیا جائے ۔
بعدا ازاں کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے