پاکستان24

چیف جسٹس کا ایرا کے بریگیڈیئر سے مکالمہ

اپریل 25, 2018 5 min

چیف جسٹس کا ایرا کے بریگیڈیئر سے مکالمہ

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ایرا نے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تیرہ سال کیا کام کیا ہے؟ ۔ چیف جسٹس نے ایرا کے بریگیڈیئر سے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ پاک فوج سے ہیں، ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں، متاثرہ علاقوں میں جاتے ہوں گے تو سرینا ہوٹل میں ٹھہرتے ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں آپ کی کوٹھیاں ہوں گی، بچے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوں گے، ان لوگوں کا سوچیں تیرہ سال سے ٹینٹ میں رہ رہے ہیں، ان کے بچے کہاں پڑھتے ہیں، کبھی ان کے ساتھ ٹینٹ میں رہیں تو پتہ چلے ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مانسہرہ / بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی _ چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں پوچھا کہ بتائیں ہوا کیا ہے، بالاکوٹ کا کیا بنا؟ جو بیرونی امداد آئی تھی کیا حکومت کے خزانے میں چلی گئی، بیرون ملک مقیم مخیر پاکستانیوں نے بھی اربوں روپے دیے تھے، کل کتنی رقم تھی؟

عدالت کو بتایا گیا کہ اکنامک افیئرز ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق دو ارب نواسی کروڑ ڈالر بیرونی عطیات ملے، پاکستانیوں کی جانب سے دیے گئے عطیات کی تفصیلات اکنامک افئیرز ڈویژن کے پاس نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایرا صرف عمل درآمد کی اتھارٹی ہے، منصوبے حکومت نے منظور کرنے ہوتے ہیں ۔

متاثرین کے وکیل نے کہا کہ زلزلے کے بعد اسلام آباد میں ڈونرز کانفرنس میں عالمی نمائندوں نے شرکت کی، اس میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کئے گئے، تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر اسی وقت دے دیے گئے تھے ۔ دو ہزار دس دس تک ایرا کے اکاونٹ میں پچاسی ارب روپے موجود تھے جن میں سے پچپن ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈز کو منتقل کیے گئے ۔ عدالت کو متاثرین نے بتایا کہ ایرا کے انتظامی اخراجات ایک ارب باسٹھ کروڑ ہیں جو بانوے فیصد بنتے ہیں، جبکہ تعمیر نو اور آباد کاری پر صرف آٹھ فیصد اخراجات ہوتے ہیں، یہ رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں دو سال قبل پیش کی گئی تھی ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایرا میں کتنے ملازم ہیں؟ بریگیڈئیر نے بتایا کہ گیارہ سو افراد ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس کس کے عزیز بھرتی کئے گئے، اپنے چاچے مامے بھرتی کئے گئے ۔ بریگیڈئیر نے کہا کہ میں تو نہیں رکھے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ حاضر سروس بریگیڈئیر ہیں؟ اثبات میں جواب دیتے ہوئے بریگیڈئیر نے کہا کہ نیو بالاکوٹ سٹی کیلئے ۱۱۴۳۶ کنال اراضی لی گئی اور ڈیڑھ ارب روپے وفاقی حکومت نے ادا کیے ۔ ۸۴۴۴ کنال اراضی ماسٹر پلان کے مطابق ڈویلپ کی گئی مگر اس دوران مقامی لوگوں نے سنہ ۲۰۰۹ میں ہنگامے کیے تو کام بند کرنا پڑا، سیشن جج نے اپنے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

عدالت کے پوچھنے پر بریگیڈئیر نے بتایا کہ اگر حالات سازگار ہوں تو دو سال کے اندر نیو بالاکوٹ کو بنا سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن حالات میں تیرہ سال سے مقامی لوگ رہ رہے ہیں کیا آپ رہ سکتے ہیں؟ پاکستان ۲۴ کے مطابق بریگیڈئیر نے بتایا کہ جن علاقوں میں رہا ہوں وہاں کوئی نہیں رہ سکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت رہے ہوں گے جب فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے، اب تو کوٹھی میں رہتے ہوں گے اور جب متاثرہ علاقوں میں جاتے ہوں گے تو سرینا ہوٹل میں رہتے ہوں گے ۔

بریگیڈئیر نے جواب دیا کہ میں اگر وہاں جاوں گا تو اپنے استحقاق کے مطابق سرکار نے جس ہوٹل کی اجازت دی ہو اسی طرح کے اچھے ہوٹل میں رہتا ہوں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بات کر لیں تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ جھاڑ پلا دی ہے، خدانخواستہ اگر اگر آپ کو بھی بالاکوٹ مانسہرہ میں رہنا پڑتا تو پتہ چلتا ۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت خزانہ سے پیسے نہیں ملے اس وجہ سے منصوبے مکمل نہیں ہو رہے ۔ بریگیڈئیر نے نے بتایا کہ وزیراعظم سے بھی گزشتہ دنوں ملاقات کر کے آگاہ کیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کو بلا لیں، عدالت کو بتایا گیا کہ وہ بجٹ کے بارے میں اہم اجلاس میں شریک ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بلا لیں ان سے پوچھ لیتے ہیں ۔

عدالت کو بتایا گیا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں آج بھی چار لاکھ بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کرائے کا ہیلی کاپٹر کتنے میں جاتا ہے؟ ہم سب پیسے جوڑ کر وہاں اپنے خرچ پر جائیں گے ۔ چیف جسٹس نے بریگیڈئیر سے پوچھا کہ آپ کے بچے کس اسکول میں پڑھتے ہیں، کسی اچھے اسکول میں ہی پڑھتے ہوں گے ۔

بریگیڈئیر نے بتایا کہ اچھے اسکول میں ہی پڑھتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دوسروں کے بچوں کا حق نہیں کہ اچھے اسکول میں پڑھیں؟ رجسٹرار سے کہیں کہ پرائیویٹ ہیلی کاپٹر کا کوئی انتظام ہے؟ ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان عدم تعاون کی وجہ سے نیو بالاکوٹ سٹی کا منصوبہ متاثر ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان سب لوگوں پر شیم ہو جو اس کی تاخیر کا باعث بنے ۔ یہ تو اس طرح کا معاملہ ہے کہ قومی احتساب بیورو نیب کو بھیجا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی تفتیش ہو ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے ایرا کی کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ۔ عدالت کو متاثرہ درخواست گزار نے بتایا کہ میرے پاس مانسہرہ کے ایک ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ ہے جو اس نے سینٹ کمیٹی کو خط کی صورت میں لکھی تھی، رپورٹ میں نیو بالاکوٹ سٹی کی تعمیر میں تاخٰیر کا ذمہ دار ایرا کو قرار دیا گیا ہے، اس خط کے بعد ڈپٹی کمشنر کا مانسہرہ سے تبادلہ کر دیا گیا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ زلزلے کو تیرہ سال گزر گئے مگر ایرا نے کوئی کام نہیں کیا ۔ ساٹھ گھروں کے لوگ اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں، یہ لوگ نیو سٹی کیلئے مقامی لوگوں کی نہری اور زرعی زمین بیس سے ساٹھ ہزار روپے کنال لے کر ان کو پلاٹ بھی نہیں دے رہے تھے جس پر لوگوں نے احتجاج کیا ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت کو متاثرین نے بتایا کہ مانسہرہ کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کنگ عبداللہ سعودی حکومت کے تعاون سے بن رہا ہے اور ایرا کی وجہ سے تیرہ سال میں مکمل نہ ہو سکا ۔ اب سپریم کورٹ نے یہ کیس سننا شروع کیا ہے تو ایرا نے جلد بازی میں گزشتہ روز یہ ہسپتال صوبائی حکومت کے حوالے کیا، اس وقت بھی اس میں پانی آ رہا ہے اور کروڑوں روپے کی مشینری کے خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ انگریز کے دور میں ۱۹۳۵ میں ٖڈاڈر کے علاقے میں ٹی بی سینی ٹوریم بنا تھا زلزلے کے تیرہ سال بعد بھی اس کو بحال نہ کیا گیا ۔ بیس لاکھ کی آبادی کیلئے کسی ہسپتال میں کوئی آئی سی یو اور سی سی یو نہیں، مانسہرہ سے آگے پانچ اضلاع میں ایک بھی زنانہ ہسپتال نہیں ہے، علاقے میں ۳۵۰ سکول آج تک زیر تعمیر ہیں ۔ چیف جسٹس اس دوران سر پکڑ کر بیٹھے رہے ۔

عدالت کو ایک درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ایرا نے متاثرہ علاقوں میں تین کلومیٹر سڑک کا ٹھیکہ تین سے چار کروڑ میں دیا، اس کیلئے دورانیہ دو سال کا رکھا۔ ٹینڈر موجود ہیں عدالت دیکھ سکتی ہے ۔ کے پی حکومت کی پالیسی ہے کہ تعلیمی ادارے کیلئے زمین مقامی لوگ دیں، سرکار زمین خود کیوں نہیں دیتی؟ ایرا نے علاقے میں واحد گرلز کالج مکمل کیا ہے مگر اس میں کوئی اسٹاف نہیں ہے ۔

اس کے ساتھ ہی عدالت میں گھنٹیاں بج اٹھیں، ہرکارے بھاگتے ہوئے آئے، کرسیاں کے پیچھے کھڑے ہوئے اور چیف جسٹس نے نشست سے اٹھتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم ابھی بالاکوٹ جائیں گے، جس نے چلنا ہے ہمارے ساتھ آ جائے ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے