کالم

خواجہ آصف بچ رہے ہیں؟

مئی 31, 2018 5 min

خواجہ آصف بچ رہے ہیں؟

Reading Time: 5 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد

نااہلی کیس میں خواجہ آصف کے خلاف عثمان ڈار کے وکیل نے دن ڈیڑھ بجے سے لے کر سوا چار بجے تک دلائل دیے مگر  بظاہر ججوں کو متاثر کرنے اور مقدمے کو ریورس گیئر میں جانے سے روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔

سپریم کورٹ نے نااہلی کے خلاف خواجہ آصف کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی پر سوال اٹھائے ہیں ۔ بنچ کے سربراہ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا ہے کہ عدالت کے پاس عوامی مفاد کے مقدمے 184/3 کے تحت وسیع اختیارات ہیں، یہ ارٹیکل 199 کی کارروائی ہے جو آرٹیکل 184/3 سے مختلف ہے، میرے خیال سے غیر ملکی تنخواہ کا بتا دینا کافی ہے، نہیں چاہتے کسی کے کیرئیر کو تباہ کیا جائے ۔

عدالتی عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے تحریک انصاف کے عثمان ڈار کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیر بیرون ملک نوکری اور تنخواہ مفادات کا ٹکراؤ ہے ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے خلاف الیکشن پیٹیشن میں یہ نکات نہیں اٹھائے، یہ مقدمہ آرٹیکل 184 تین کے تحت نہیں، قانونی دائرہ کار اور عدالت کے  دائرہ اختیار پر بھی مطمئن کریں ۔  جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا مفادات کا ٹکراؤ ایشو پر بھی آرٹیکل 62 ون ایف کا نفاذ ہوتا ہے ؟ ۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ دلائل میں عدالتی سوالات کا جواب دوں گا ۔

جسٹس عمر عطابندیال نے پوچھا کہ کیا اثاثوں کا معاملہ الیکشن ٹریبونل میں بھی اٹھایا گیا تھا؟ ۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل میں عثمان ڈار فریق نہیں تھے، معاہدے کے مطابق خواجہ آصف کی تنخواہ 9 ہزار درہم تھی، اس طرح ایک سال کی تنخواہ ایک لاکھ آٹھ ہزار درہم تھی جو ظاہر نہیں کی گئی ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا 9 ہزار درہم اور ملازمت کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیں ۔ وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف 9 ہزار درہم  ظاہر کیے مگر دوسرے خانے میں صفر لکھا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے پوچھا کہ اگر تنخواہ خرچ ہو جائے تو کیا وہ اثاثہ ہو گی، کرنٹ سیلری اثاثہ نہیں ہوتی، ہو سکتا ہے وہ کہیں کہ ساتھ ساتھ رقم خرچ ہوئی تو پھر کیا ہوگا ۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ خواجہ آصف نے خرچ کرنے کا موقف نہیں اپنایا، ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہی لکھا ہے، انہوں نے یہ تنخواہ وصول کی اور ایک لاکھ آٹھ ہزار درہم کی آمدن نہیں بتائی، خواجہ آصف کی 68 لاکھ غیرملکی آمدن میں تنخواہ شامل نہیں ۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں ۔ وکیل نے کہا کہ ٹریبونل میں 68 لاکھ غیرملکی آمدن کو کاروبار سے مشروط کیا گیا، ٹریبونل میں غیرملکی تنخواہ اور آمدن کا الگ ذکر نہیں کیا گیا ۔وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف 3.8 ملین کی غیر ملکی آمدن ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ خواجہ آصف کے ٹیکس گوشواروں میں نہیں جانا چاہتے، اگر ٹیکس نہیں دیا تو متعلقہ محکمہ جرمانہ عائد کرے گا ۔

عثمان ڈار کے وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف کی غیرملکی آمدن بھی پاکستان میں قابل ٹیکس ہے، خواجہ آصف نے ٹیکس گوشواروں اور انتخابی گوشواروں میں ملازمت کو چھپایا، یہ جان بوجھ کر کیا گیا، ابتدائی طور پر ذریعہ آمدن کاروبار اور بعدازاں کیس آگے بڑھنے پر عدالت میں تنخواہ کا بھی مان لیا گیا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنا نہ کرنا مختلف ایشو ہے، ہمارے سامنے مقدمہ ارٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا ہے، کیا غیر ملکی آمدن کے زرائع بتانے کے خواجہ آصف پابند تھے؟ اِنکم ٹیکس قانون کے تحت غیرملکی آمدن کے زرائع بتانا ضروری نہیں، غیرملکی آمدن کے حوالے سے ہمارے قانون میں سقم ہیں ۔

وکیل نے کہا کہ ٹیکس حکام غیرملکی آمدن کے زرائع پوچھ سکتے ہیں ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ قانون میں غیر ملکی آمدن اور ذرائع پوچھنے پر استثنی دیا گیا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ استثنی صرف غیرملکی رہائشی پاکستانیوں کے لیے ہے ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ قانون میں استثنا جان بوجھ کر رکھا گیا ہے، امیر لوگوں کے لیے ایسا کیا گیا تاکہ وہ پیسے پاکستان لائیں،حالیہ ایمنسٹی اسکیم میں ٹیکس کے قانون میں سقم کو دور کر دیا گیا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے پوچھا کہ آمدن کے زرائع نہ بتانے پر نااہلی کیسے ہو سکتی ہے، اگر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تو جرمانہ ہو گا، یہ کہاں لکھا ہے کہ کاروبار اور تنخواہ کی آمدن الگ الگ بتائی جائے، یہ 62 ون ایف کا معاملہ ہے اس لیے خوب پرکھنا ہوگا ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی سخت سزا ہے اس لیے مقدمے میں معیار اور دلائل بھی غیر معمولی ہونا چاہئیں ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس مقدمے میں خواجہ آصٖف نے بتایا کہ یہ رقم ہے جو باہر سے لائی گئی، کووارنٹو رٹ میں مقدمہ غیر تصدیق شدہ معاملات اور سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے بلکہ جمع کرائی گئی دستاویزات کی بنیاد پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ وکیل نے کہا کہ رٹ پیٹیشن سے قبل غیرملکی آمدن کے زریعے میں تنخواہ کا کسی کو معلوم نہیں تھا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدالت کے پاس 184/3 کے تحت سنے جانے والے مقدمے میں وسیع اختیارات ہیں، یہ ارٹیکل 199 کی کاروائی ہے جو آرٹیکل 184/3 سے مختلف ہے، خواجہ آصف نے تنخواہ کی بچت صفر بتائی، خواجہ آصف کی بات اگر غلط ہے تو ٹیکس حکام جا کر پکڑ لیں ۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ میرے خیال سے غیر ملکی تنخواہ کا بتا دینا کافی ہے، نہیں چاہتے کسی کے کیرئیر کو تباہ کیا جائے ۔ وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف نے 2014 کے گوشواروں میں غیرملکی آمدن ظاہر نہیں کی، میں خواجہ آصف نے غیر ملکی آمدن 13.2 ملین بتائی، یہ آمدن ان کی مجموعی تنخواہ کی آمدن سے زیادہ ہے ۔ وکیل نے کہا کہ دبئی بنک کا اکاوئنٹ بھی کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا گیا ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بنک اکاوئنٹ چھپا کر کیا فائدہ حاصل کیا گیا، ہو سکتا ہے اکاوئنٹ ظاہر کرنا بھول گئے ہوں ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ نااہلی کے دیگر اور 62 ون ایف کے مقدمات میں بہت اہم فرق ہے، دیگر میں تاحیات نااہلی نہیں ہوئی، ہمیں ارٹیکل 62-ون ایف کے مقدمات کو بہت سنجیدگی اور گہرائی سے دیکھنا ہے، تاحیات نااہلی پر عدالت باریک بینی سے کیس کا جائزہ لیتی ہے ۔ عمران خان کے مقدمے میں جسٹس فیصل عرب نے اس پر الگ سے نوٹ بھی لکھا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آرٹیکل 199 کی کارروائی بھی مخاصمانہ نوعیت کی نہیں، خواجہ آصف نے خود ہائیکورٹ میں ہماری دستاویز کی تصدیق کی ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اس طرح کا کوئی واضح ثبوت ہے اور نہ عدالت کے فیصلے میں اس کی جھلک ملتی ہے ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے خواجہ آصف کے وکیل منیر اے ملک سے مخاطب ہو کر کہا کہ اب اس پر آپ کی معاونت بھی درکار ہوگی کیونکہ معاملہ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 42 اے کی جانب شفٹ کر گیا ہے جس کے تحت ارکان کو ہر سال اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانا ہوتے ہیں، پہلے یہ صرف کاغذات نامزدگی کا معاملہ تھا ۔ کیا اس پر عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 99 ون ایف کے تحت نااہلی ہوگی یا پھر 62 ون ایف کے تحت ۔ اس پر مزید معاونت کی جائے ۔

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ شق 99 ون ایف اور آرٹیکل 62 ون ایف، دونوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں ۔ بے ایمانی اور اثاثے چھپانے پر 62-ون-ایف کا اطلاق ہو گا، خواجہ آصف وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی رہے، نواز شریف بھی تنخواہ بطور اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل ہوئے ۔ جسٹس عمرعطابندیال نے پوچھا کہ تنخواہ چھپا کر خواجہ آصف کو کیا فائدہ ہوا ۔ عثمان ڈار کے وکیل نے کہا کہ خواجہ آصف تنخواہ چھپا کر ٹیکس ادائیگی سے بچے ۔

عدالت نے حتمی دلائل کیلئے سماعت کل ساڑھے آٹھ بجے تک ملتوی کر دی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے