پاکستان24 متفرق خبریں

لاپتہ افراد ایجنسیوں کے پاس نہیں

جون 24, 2018 2 min

لاپتہ افراد ایجنسیوں کے پاس نہیں

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لاپتا افراد از خود نوٹس کی سماعت کے دوران لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ ان کے پیارے خفیہ اداروں کے پاس ہیں تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ نہیں کرتیں ۔

آئی جی سندھ امجد جاوید اور خفیہ اداروں کے نچلے درجے کے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے درخواستیں وصول کرلیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتا افراد کی معلومات اور بازیابی سے متعلق ترجیحی اقدامات کریں جس کے لئے خصوصی سیل بھی قائم کریں، اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو باقاعدہ آگاہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے لاپتا افراد اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار پر بہت افسوس ہوتا ہے، صرف جوان نہیں بلکہ57 سال کا بوڑھا شخص بھی لاپتا ہورہا ہے، لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ حادثہ ہوگیا تو شاید صبر آجائے، اللہ کرے یہ تمام افراد زندہ ہوں، مجھے یقین ہے میری ایجنسیوں نے انہیں نہیں اٹھایا ہوگا۔ ایک درخواست گزار نے کہا کہ اگر ان اداروں نے نہیں اٹھایا تو تلاش کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔

مقدمے کی سماعت سے قبل لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوئی۔ پولیس نے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کو سپریم کورٹ کے اندر جانے سے روک دیا، جس پر مظاہرین نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

خواتین اور بچوں کے ہمراہ درجنوں شہریوں نے لاپتہ افراد کی تصاویر کے ہمراہ احتجاج کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے اپیل کی ۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ زار و قطار رونے لگے اور فریاد کی کہ اگر ہمارے پیارے مرگئے ہیں تو ہمیں بتایا جائے، ہمارے بچے کئی سال سے لاپتہ ہیں ہمیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، ہر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا، اب ہم کس کے در پر جائیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ہر لاپتہ شخص کے ایک ایک رشتے دار کو عدالت میں بلالیا۔ درخواست گزار نیلم نے عدالت کو بتایا کہ اس کے والد 14 ماہ سے لاپتا ہیں۔ اس دوران دیگر خواتین نے زار و قطار رونا شروع کر دیا جس پر کمرہ عدالت میں شور شرابہ اور چیخ و پکار شروع ہوگئی_ اس دوران جذبات میں آ کر ایک خاتون نے روسٹرم پر مکہ بھی مار دیا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کے پیارے خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔

چیف جسٹس نے درخواست گزاروں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو خاموش ہونے کیلئے کہا تاہم وہ خاموش نہیں ہوئے جس پر چیف جسٹس کوئی حکم نامہ جاری کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو چیمبر میں طلب کرلیا۔ کچھ دیر کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ سماعت شروع کی اور مکہ مارنے والی خاتون کو دوبارہ روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ غیر مشروط معافی مانگیں جس پر خاتون نے معافی مانگ لی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو میں اسے جیل بھیج دیتا، مجھے قوم کی بیٹیوں سے اس بد تہذیبی کی توقع نہیں تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی درخواستوں نہیں سنوں گا۔ چیف جسٹس نے تمام درخواستیں وصول کرکے کارروائی کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے سندھ میں لاپتہ افراد پر از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ کے ساتھ ساتھ ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی کے صوبائی سربراہان کو عدالت طلب کیا تھا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے