کالم

نواز شریف کیسے پہنچے

جولائی 15, 2018 8 min

نواز شریف کیسے پہنچے

Reading Time: 8 minutes

ہمارے پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈز ابوظہبی پروٹوکول والے نے سنبھال رکھے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سینکڑوں مسافروں کی گنجائش رکھنے والے اس وسیع و عریض فرسٹ کلاس لاﺅنج میں ہم پانچ چھ افراد کے سوا کوئی بھی نہ تھا۔ ایک دو ویٹرز تھے یا دور ایک کونے میں بیٹھے سکیورٹی کے دو باوردی ارکان۔ سفید عباﺅں والے پروٹوکول افسران گاہے گاہے آتے اور ایک طائرانہ سا جائزہ لے کر چلے جاتے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم سب نے ایک ہی میز پر دوپہر کا مختصر سا کھانا کھایا۔ عین اسی دوران یہ خبر سوشل میڈیا یا شاید کچھ پاکستانی چینلز کی زینت بنی کہ میاں صاحب اس وقت ابوظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زید النیہان کے محل میں ہیں اور خصوصی نوعیت کے کچھ مذاکرات ہورہے ہیں جس میں بعض پاکستانی حکام بھی شریک ہیں۔ پھر خبر آئی کہ فلائٹ ایک منصوبے کے تحت تاخیر کا شکار ہورہی ہے اور ہمیں اس وقت پرواز کی اجازت ملے گی جب پاکستان سے اوکے کا سگنل ملے گا اور اندازہ ہے کہ ہماری پرواز صبح دو یا تین بجے لاہور پہنچے گی۔ یہ افواہیں، مستند خبروں کا سا بھیس بنائے کبھی میرے، کبھی مریم اور کبھی رمیزہ کے فون پر آرہی تھیں۔ پھر معلوم ہوا کہ جہاز میں بڑی تعداد میں کچھ مشکوک افراد سوار ہونے کو ہیں جو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ورکرز ہیں اور بڑی بدمزگی کا خطرہ ہے۔ میاں صاحب ان افواہوں سے بے نیاز لندن اپنے بچوں سے بات کررہے تھے۔ انہوں نے حسن سے کہا کہ ”تم اور حسین مل کر اپنی والدہ کی نگہداشت کا ٹائم ٹیبل سیٹ کرلو۔ وہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہے اور جو وظیفہ ہم لوگ گھر میں پڑھتے تھے، اسے جاری رکھنا۔ میں اس وظیفے کے بڑے اچھے اثرات دیکھ رہا ہوں“۔ پھر انہوں نے اپنے نواسے جنید اور پوتے حمزہ سے بات کی۔ انہیں تلقین کی کہ گھر کے باہر گالی گلوچ اور بدتمیزی کرنے والے لوگوں سے مت الجھو۔ مریم نے حسین سے امی کا پوچھا۔ پھر کہا اللہ کرے وہ جلد ہوش میں آجائیں لیکن حسین بھائی انہیں بالکل نہ بتانا کہ میں اور ابو جیل میں ہیں۔ باقی سب کو بھی سمجھا دو۔ انہیں بالکل پتہ نہ چلے۔ کہنا کہ بس جلد آنے والے ہیں۔ میں نے کہا کہ ”مریم تمہیں کوئی نہیں ڈالے گا اڈیالہ یا کسی بھی جیل میں، تمہیں کسی ریسٹ ہاﺅس میں لے جائیں گے اور ممکن ہے گھر ہی کو سب جیل قرار دے ڈالیں“۔ وہ ایک لمحے کا توقف کئے بغیر بولی ”یہ کیا ہوا انکل؟ اگر ابو جیل میں ہیں تو میں بھی جیل میں رہوں گی۔ اڈیالہ ہو یا کوئی اور جیل۔ میں ایک دن بھی کسی ریسٹ ہاﺅس نہیں جاﺅں گی“۔
سفید عبا پوش پروٹوکول والے ہمارے پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ تھامے آگئے۔ چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم سب ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گیٹ 51 کو پہنچے۔ اس وقت ایک اور افواہ ہم سب کے ذہنوں میں کلبلا رہی تھی کہ ہمیں عام مسافروں کی پرواز میں نہیں لایا جارہا، کسی خصوصی چھوٹے طیارے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ یہ وہی پرواز EY243 تھی۔ تمام مسافر پہلے ہی اپنی نشستوں تک پہنچائے جا چکے تھے۔ اب کے ہمارے ساتھ سفید پوشوں کے ساتھ ساتھ کوئی درجن بھر باوردی پولیس کے افسر اور سپاہی بھی تھے۔ یہ سارا قافلہ ہمیں جلو میں لئے جہاز کے اندر تک گیا۔ جونہی ہم ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر بزنس کلاس کے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، ایک بپھری ہوئی لہر سی اٹھی، صحافی تیزی سے لپکے، کیمروں کی لائٹس آن ہوئیں، موبائل فون حرکت میں آئے اور سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ میاں صاحب وہیں کھڑے کھڑے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے لگے۔ سکیورٹی اور پروٹوکول کے لوگ جا چکے تھے۔ طیارے کا سٹاف ہکابکا یہ سب کچھ دیکھے جارہا تھا اور پریشان تھا۔ سات آٹھ منٹ نواز شریف اور مریم وہاں سے حرکت نہ کرسکے۔ میرے ہاتھ میں 11-F سیٹ کا بورڈنگ کارڈ تھا جو بزنس کلب کے پہلے کمپارٹمنٹ کی آخری قطار میں تھی۔ ساتھ والی نشست مریم کی تھی۔ میاں صاحب اس سے آگے کی نشست پر تھے۔ میں نے انہیں اپنی سیٹ پیش کردی تاکہ وہ اور مریم اکٹھے بیٹھ سکیں۔ میں ان کی سیٹ پر چلا گیا۔ ذرا دیر بعد ہی صحافی ایک بار پھر امڈ پڑے۔ عام مسافروں نے بھی فون سنبھالے اور تصویریں بنانے اور بنوانے لگ گئے۔ کوئی آدھ گھنٹہ بعد نیب ریفرنسز میں میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث پچھلی نشست سے اٹھ کر آئے۔ مریم نے انہیں اپنی نشست پیش کردی اور خود آگے ایک خالی سیٹ پر جا بیٹھیں۔ میاں صاحب اور خواجہ حارث احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کے حوالے سے مشاورت میں مصروف ہوئے تو مریم صحافیوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ دو تین خواتین صحافیوں نے ان کے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کئے۔ کوئی گھنٹہ بھر بات چیت کے بعد اپنی سیٹ پر واپس چلے گئے۔ اب تک بیرونی میڈیا کے کچھ صحافی دھکم پیل اور لپک جھپک سے ہٹ کر اس انتظار میں تھے کہ انہیں بات چیت کا موقع ملے۔ توجہ دلانے پر میاں صاحب نے اکانومسٹ، رائٹر اور بی بی سی کے تین نمائندوں کوالگ الگ انٹرویوز ریکارڈ کرائے۔ اب تک کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی تھی۔ نہ کوئی پراسرار لوگ نظر آئے۔ پی ٹی آئی کے جتھے بھی محض افواہ نکلے۔ لاہور کوئی آدھ پون گھنٹے کے فاصلے پر رہ گیا تھا کہ پاکستان بھر کے تقریباً تمام چینلز کے رپورٹرز نے ایک دفعہ پھر مورچہ سنبھالا اور سوالات شروع ہوگئے۔ میاں صاحب نے ایک بات تواتر سے کہی کہ میڈیا تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک چوتھائی میڈیا بھی خوف سے نکل آئے اور جبر کے سامنے جھکانے سے انکار کردے تو حقیقی جمہوریت کی منزل بہت قریب آجائے گی۔ اپنے پروگرام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے مطابق خود کو گرفتاری کے لئے پیش کرنے آرہا ہوں۔ مریم بھی میرے ساتھ ہے۔ صفدر پہلے ہی جیل جاچکا ہے۔ ہم ائرپورٹ سے باہر جاکر اپنے لوگوں سے بات کریں گے۔ میں اپنی والدہ اورمریم اپنی دادی کو سلام پیش کرے گی۔ اس کے بعد ہم کل کی صبح طلوع ہونے سے پہلے پہلے نیب لاہور کے دفتر پیش ہوجائیں گے۔ اس لئے کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے نہ کوئی غیر مہذب حرکت کرنی چاہئے۔
طیارہ اپنی متعین جگہ اور ٹیوبز سے بہت دور ایک کھلی جگہ رکا۔ ایک صحافی خاتون نے شیشے سے جھانک کر دیکھا اور بولی: ”ہر طرف رینجرز ہی رینجرز ہیں۔ دور دور تک پھیلے ہوئے“۔ رینجرز، اے ایس ایف یا ایلیٹ فورس کی وردیوں میں تمیز کرنا میرے لئے ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ میں نے باہر جھانک کر دیکھا، وہ پرے باندھے کھڑے تھے۔ ان میں خواتین کے دستے بھی تھے۔ طیارہ کھڑا تھا اور اندر غیر یقینی صورت حال کا تناﺅ بڑھتا جارہا تھا۔ صحافی متحرک تھے اور ان کے کیمرے مسلسل آنکھیں جھپک رہے تھے۔ لندن اور ابوظہبی سے طیارے پر سوار ہونے والے مسلم لیگی کارکن میاں صاحب اور مریم کی نشستوں کے گرد کھڑے ہوگئے۔ کسی ایک نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگایا۔ اس کا بھرپور جواب آیا۔ میاں صاحب بولے: ”نہیں نہیں، اس طرح نہ کریں“۔ دروازے کھل گئے تھے۔ سیڑھیاں لگ چکی تھیں لیکن کسی مسافر کو نیچے اترنے کی اجازت نہ دی گئی۔ دونوں طرف سیڑھیوں پر باوردی افراد نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ کوئی پندرہ منٹ بعد با وردی مرد اور خواتین پچھلی سیڑھی سے اندر داخل ہوئے تمام رپورٹرز کی لائیو کمنٹری شروع ہو گئی ہر ایک اپنی نگاہ اپنے مشاہدے، اپنے ذوق اور اپنے چینل کے تقاضوں کے مطابق بولے جا رہا تھا اور کسی کو کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ایک سینئر افسر اور دو تین بارودی خواتین نشست کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔ کسی نے میاں صاحب یا مریم کو نہیں چھوا، کارکن نعرہ زن ہوئے لیکن میاں صاحب نے ایک بار پھر منع کرا دیا۔ انہوں نے نرم لہجے میں کہا کہ میں گرفتاری دینے آیا ہوں۔ آپ نے یہ حالت جنگ کیوں بنا دی ہے۔ میں اپنے عوام سے ملکر اور اپنی والدہ کی دعائیں لیکر پیش ہو جاﺅں گا۔ آپ کو کسی طرح کی زحمت کی ضرورت نہیں۔ اس دوران امریکہ میں مقیم ایک مسلم لیگی کارکن عبدالخالق اعوان نے بلند آواز میں انگریزی میں تقریر شروع کر دی۔ پورا کیبن اس تقریر سے گونجنے لگا وہ بولے جا رہا تھا۔
”میں اعوان ہوں۔ میں پاکستانی ہوں کیوں مذاق بنا دیا ہے میرے ملک کو، کیوں اس طرح کی حرکتیں کرکے ساری دنیا میں بدنام کر رہے ہو۔ سٹاپ اٹ پلیز، سٹاپ اٹ پلیز۔ کیا کیا ہے اس شخص نے یہی ناکہ وہ اس ملک کو بنا رہا تھا۔ اور اگر اسے سزا ہوئی ہے تو وہ آ گیا ہے نا۔ گرفتاری دینے ہی آیا ہے۔ عزت کرو اس کی۔ وہ بولے جا رہا تھا۔ انگریزی پیہم برس رہی تھی۔ میرے پہلو سے لگا ایک افسر بت کی طرح کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔ وہ ایک لفظ بھی نہ بولا۔
صورتحال تلخ ہونے لگی تو میاں صاحب اٹھے۔ مریم بھی اٹھ کر کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی خدمت گار عابداللہ سے کہا میرے ساتھ رہنا۔ پھر وہ اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان سے کہنے لگے۔
”دوا¶ں والا بیگ ساتھ ہی رکھنا“ ان کے ساتھ درجنوں با وردی اہلکار اور بیس سے زائد مسلم لیگی کارکن بھی اس انبوہ کا حصہ بن گئے۔ نعرے پھر شروع ہو گئے۔ یہ بھیڑ عقبی سیڑھی کی طرف بڑھی جن میں دم خم تھا وہ دھکم پیل کرتے اس ریلے میں شامل ہو گیا۔ خواتین بچے اور مسافروں کی ایک بڑی تعداد اندر رہ گئی۔ نیچے پرانے ماڈل کی دوسادہ سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ کوئی دو سو میٹر پرے ایک ہیلی کاپٹر اپنے بڑے بڑے پر، باز¶ں کی طرح پھیلائے کھڑا تھا ایک طرف ایک چھوٹا طیارہ نظر آ رہا تھا۔ میں اپنا دستی بیگ تھامے طیارے کے دروازے تک پہلے زینے تک آیا لیکن نیچے نہ اتر سکا میرے آگے کوئی پچاس لوگ جن میں خواتین بھی تھیں، چھوٹے بچے بھی، بزرگ بھی سیڑھیوں پر پھنسے کھڑے تھے۔ نیچے بیسیوں اہلکاروں نے راستہ روک رکھا تھا۔ عقبی سیڑھی کا بھی یہی عالم تھا بچے رو رہے تھے خواتین کوس رہی تھیں کئی صحافی چیخ رہے تھے کہ انہیں اپنے فرائض کیلئے نیچے جانے دیا جائے لیکن کوئی کسی کو سننے والا نہ تھا۔ میاں نواز شریف، مریم، مسلم لیگی کارکن اور با وردی اہلکاروں کا مجمع خاصا بڑا لگ رہا تھا۔ وہاں سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کیا بات ہو رہی ہے۔ کوئی نصف گھنٹے بعد یہ غول طیارے کے قریب پہنچا اور بھیڑ چھٹنے لگی۔ غالباً میاں صاحب اور مریم کو طیارے میں بٹھا دیا گیا تھا اس کے بعد پون گھنٹہ سیڑھیوں کی ناکہ بندی جاری رہی۔ یہاں تک خواتین دہائی دینے لگیں۔
ساڑھے آٹھ بجے طیارے نے لینڈنگ کی تھی۔ اب ساڑھے دس بجے رہے تھے اور ہم سیڑھیاں نہیں اتر پا رہے تھے۔ مجرم اور مجرمہ کا طیارہ رن وے پہ روانہ ہوا تو سیڑھیوں کے ناکے ٹوٹے، نیچے صحافیوں کا ایک انبوہ تھا اور ان کے تبصرے۔ میری نظر عابداللہ پر پڑی میں نے پوچھا تم گئے نہیں۔ وہ بولا ”سر مجھے طیارے تک لے گئے میاں صاحب کے کہنے پر پھر دھکا دے کر پیچھے دھکیل دیا۔ اتنی دیر میں سہما ہوا ڈاکٹر عدنان میرے قریب آیا اس کی آنکھیں جھلک رہی تھیں۔ دوا¶ں کا بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ بولا ”سر میاںصاحب کہتے رہے، میں چیختا رہا لیکن انہیں یہ بیگ ساتھ نہ لے جانے دیا گیا۔ اب پتہ نہیں کیا ہوگا وہ دل کے مریض ہیں پتہ نہیں کس وقت کس دوا کی ضرورت پڑ جائے۔
میں باہر آیا تو دور دور تک سناٹا تھا۔ نہ کار نہ رکشا، نہ ٹیکسی، دیر تک میں اپنا بیگ تھامے کھڑا رہا۔ ایک صاحب میرے پاس آئے مجھے اپنی گاڑی پہ بٹھایا اور میری منزل پر چھوڑا آئے راستے بھر میں بہت کچھ سنتا رہا لیکن بول نہ سکا میرے حافظے کی لوح پر گیارہ پرس پہلے کا منظر بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح گھوم رہا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ نواز شریف تو مجرم ہے، اس کی بیٹی بھی عدالت سے مجرمہ قرار پا چکی ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستانی مجرموں سے پاک ہو رہا ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ مجھے اس خیال سے کچھ تسلی ہوئی ایک مدت سے معمول رہا کہ میاں صاحب کے خصوصی فون نمبر پر بات ہو جاتی کوئی وٹس اپ ٹیکسٹ کرتا تو جلد جواب آ جاتا۔ آج صبح میں نے دیکھا کہ وٹس ایپ پر ان کا نمبر نہیں آ رہا ۔ کچھ دنوں سے ایک اور فون نمبر بھی ان کے زیر استعمال تھا۔ اس پر بھی ٹیکسٹس کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ میں نے بیدار ہوتے ہی انہیں لکھا۔ ”السلام علیکم“ یہ سطور لکھتے وقت کوئی اٹھارہ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے