کالم

شب گزیدہ سحر

جولائی 22, 2018 3 min

شب گزیدہ سحر

Reading Time: 3 minutes

محمد اعظم گِل

وہ قومیں ہمیشہ ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو اپنے ماضی کو یاد اور مستقبل پر نظر رکھتی ہیں، جستجو منزل کے لیے لازم و ملزوم، علم و عرفاں کا خزانہ شعور اور آگاہی کی شرط، سوچ بدلنے کے لیے سوچنے کی حس ضروری، مگر زندہ قومیں سوچتی ہیں اپنے روشن کل کے لیے لیکن کل نہیں آج ۔ایک دوست کے ساتھ ایک ہوٹل پر بیٹھے ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو شنید جاری تھی، قسمت خان مجھے اس بات پر قائل کرنے پہ بضد تھا کہ اس مرتبہ اس الیکشن میں تبدیلی اپنا رنگ جمائے گی، انتقال اقتدار عوامی شعور اور امنگوں کی ترجمانی کے ساتھ منتقل ہوگا ۔ میری طنزیہ مسکراہٹ کو دیکھ کر میرا صحافی دوست نالاں بھی ہورہا تھا جس کا اندازہ اس کے ماتھے پہ آئے بَل اور اس کے چہرے کے بدلتے تیور بخوبی آگاہ ہی نہیں بلکہ مجھے خبردار بھی کررہے تھے، ہمارے کھانے کے لیے دیے گئے آڈر میں تبدیلی کی وجہ سے کھانا آنے میں ابھی کچھ دیر تھی، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھا، اور بات سیاسی پارہ کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کے کرداروں اور منشور میں واضح فرق کے حوالے سے ابھی چل ہی رہی تھی کہ اچانک ساتھ والی ٹیبل پر موجود لوگوں کی خوش گپیوں کی طرف میں نے اپنے دوست کی توجہ مبذول کروائی،،، گفتگو کافی دلچسپ اور حیران کن پیرائے میں تھی، کھانے کی ٹیبل پہ بیٹھے تین لوگوں میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے مخاطب ہوتا ہے کہ یار اے نواز شریف نوں الیکشن لڑن واسطے ٹکٹ ملیا وا؟؟(نواز شریف کو الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ ملا ہے یا نہیں؟) دوسرا شخص جواب دیتا ہے، ہن تک تے ٹکٹ نہیں ملیا، (ابھی تک ٹکٹ نہیں ملا) تیسرا شخص گفتگو کو سمیٹتے ہوئے جواب دیتا ہے اسے ابھی تک ٹکٹ ملا نہیں لیکن مل جائے گا کیونکہ ابھی اس کا رولا چل ریا وا۔ ہم دونوں دوست یہ بات سن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بادل ناخواستہ مسکرا دیئے،، یہ افسردگی، کی بجائے زیرلب مسکراہٹ جاری ہی تھی کہ ویٹر ہمارے کھانے کا آڈر لے کر آگیا، ہم کھانا تناول کرنے کے ساتھ ساتھ باتوں میں بھی مصروف ہوگئے، وہ قومیں ہمیشہ ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو اپنے ماضی کو یاد اور مستقبل پہ نظر رکھتی ہیں ہمارا مستقبل بھی آشنائی چاہتا ہے اور ہمارا ماضی بھی تاریخ کے جھرنکوں میں جھانکنے کی خواہش،میرا خان دوست مجھے اس بات پہ قائل کرنے پہ بضد تھا کہ ووٹ اس دفعہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی دیے جائیں گے ۔ ملک کو لوٹنے اور اقتدار کے نشے میں بدمست رہنے والے جیتنا تو درکنار اب بقاء کی جنگ بھی نہیں لڑپائیں گے ۔اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں گزرے وقت اور دوستوں کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی ہے، اور پھر یوں اس ملاقات کا قصہ تمام ہوا، مگر کچھ سوال ذہن پہ نقش تھے، کہ کیا واقعی اس دفعہ عوام ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر ہی دیا جائے گا؟، کیا اس دفعہ ووٹ دینے سے قبل ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے علاج کی عدم دستیابی کی وجہ سےتڑپتے ہوئے لوگ یاد رہینگے؟ کیا ہم ووٹ دینے سے قبل ماڈل ٹاؤن سانحہ کو بھی یاد رکھیں گے؟ ہسپتالوں میں سہولیات کا ڈھنڈورہ پیٹتے سن کر کیا ہم سڑکوں پر ماؤں کے بچے جننے کے واقعات بھی بھول جائیں گے؟ کیا ہم پیرس بنانے کے وعدے بھی وفا نہ ہونے کویاد رکھیں گے؟کیا ہم ملکی اداروں کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی بھی قصہ پارینہ سمجھیں گے؟ کیا ہم گالی گلوچ کے دیے جانے والے کلچر کو بھی نظر انداز کر دینگے؟ کیا ہم اس ایوان کو جس نے پاکستان کو آئین دیا اسے لعنت بھیجنے والوں کا محاسبہ کرنے سے گریزاں ہونگے؟ کیا ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پہ کیے جانے والے مزاق کو کوئی اہمیت نہیں دینگے،؟ کیا ہم روٹی کپڑا اور مکان کے لیے کیے جانے والے سیاسی نعروں میں گم ہوجائینگے؟ کیا ہم تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے ماؤں کے جگر گوشوں کی جانوں کوبھی ارازاں ہی سمجھینگے؟انہیں سوالوں کے جوابات کی تلاش میں سوچوں میں گم ہی تھا کہ ٹی وی سیکرین پہ ایک پروگرام چل رہا تھا جس میں الیکشن میں ووٹ دینے سے متعلق لوگوں سے پوچھا جارہا تھا کہ کس کو ووٹ دینگے،،، اور فلاں پارٹی کوکیوں ووٹ دینگے،؟؟کس کو ووٹ دو گے صحافی کا شہری سے سوال کرتا ہے جس ہر شہری کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ میں شیر کو ووٹ دونگا،، صحافی پھر دوسرا سوال پوچھتا ہے کہ شیر کو ہی کیوں ووٹ دے رہے ہیں؟؟ شہری جواب دیتا ہے کیونکہ میرے بھتیجے کا نام شیر خان ہے اس لیے شیر کو ووٹ دے رہا ہوں،،،یہ سننے کے ساتھ ہی میں پردہ سماعت سے ایک نعرہ ٹکراتا ہے کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا اسی نعرے کے ساتھ ہی میری سوچ کہیں ہجوم میں بھٹو کی تلاش میں گم ہوجاتی ہے اور میرے ذہن پہ انمٹ نقوش چھوڑ دیتی ہے کہ ،وہ قومیں ہمیشہ ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو اپنے ماضی کو یاد اور مستقبل پہ نظر رکھتی ہیں،،، جستجو منزل کے لیے لازم و ملزوم، علم و عرفاں کا خزانہ شعور اور آگاہی کی شرط، سوچ بدلنے کے لیے سوچنے کے حس ضروری مگر زندہ قومیں سوچتی ہیں اپنے روشن کل کے لیے لیکن کل نہیں آج ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے