کالم

پہلے پولنگ اسٹیشن کا دورہ

جولائی 25, 2018 3 min

پہلے پولنگ اسٹیشن کا دورہ

Reading Time: 3 minutes

الیکشن دو ہزارہ اٹھارہ کی پولنگ جاری ہے ۔ اسلام آباد کی سپر مارکیٹ کے قریب واقع پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا ۔

مرکزی دروازے سے وی آئی پی موومنٹ ہو رہی تھی ۔ بڑی اور بھاری گاڑی میں مبصرین یا پھر کوئی خلائی مخلوق ووٹ کر کے نکل رہی تھی ۔ پولیس اور فوجیوں کی جان پر بنی ہوئی تھی ۔

گاڑیاں نکل گئیں، مرکزی دروازہ بند ہوا، پولیس اہلکار نے بتایا کہ آپ لوگوں اور ووٹرز کیلئے دوسرا دروازہ ہے ۔ دوسرے دروازے کے سامنے تین پولیس اہلکار کھڑے تھے، خندہ پیشانی سے ملے ۔ آگے بڑھے تو ستائیس اٹھائیس برس کا جوان فوجی وردی میں جی تھری لئے کھڑا تھا ۔ بولا، ووٹر ہیں تو اندر جا سکتے ہیں میڈیا کو اجازت نہیں ہے ۔ بتایا اور دکھایا کہ یہ الیکشن کمیشن نے کارڈ جاری کیا ہے، راضی نہ ہوا تو کہا کہ افسر کو بلاؤ۔ اس نے سیٹی بجائی ۔ اندر سے پولیس افسر نکل کر آیا ۔

اس نے کہا کہ سر، ابھی اندر دو میڈیا والے ہیں، ان کو باہر آنے دیں ۔ اس کو سمجھایا کہ اجازت باری باری کیلئے نہیں ہے ۔ تین چار منٹ اس تکرار میں گزر گئے ۔ اس دوران فوجی افسر آیا۔ بہت مسکراتے اور تکریم سے کہنے لگا سر، آپ وزٹ کر سکتے ہیں، آپ کے پاس کارڈ ہیں، مختصر دورہ کر کے جائزہ لے لیں ۔

اندر تین پولنگ بوتھ تھے، خواتین کیلئے بڑے ہال میں اور مردوں کیلئے دو کلاس روم کمروں میں ۔ اندر کھڑے پولیس اہلکار نے کہا کہ مردوں والے میں چلے جائیں، بتایا کہ مبصر ہیں ۔ پھر بولا کہ ایک رپورٹر اس میں چلا جائے دوسرا مردوں کے بوتھ پر ۔ سمجھایا کہ دونوں ساتھ ہیں ۔

خواتین پولنگ اسٹیشن کے ہال میں تین فوجی جوان جی تھری سنبھالے کھڑے تھے ۔ درجن بھر خواتین ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہی تھیں ۔ خاتون پریذائڈنگ افسر سے گفتگو کی ۔ بولیں کہ ابھی تک تو میں ہی افسر ہوں، اللہ کرے آخر تک ایسا ہی رہے ۔ اسی دوران دور کھڑا فوجی جوان قریب آیا اور گفتگو سننے کی کوشش کرنے لگا ۔

اس کے بعد مردوں کے پولنگ بوتھ کا رخ کیا ۔ چار پانچ ووٹرز تھے اور درجن بھر عملہ ۔ پریذائڈنگ افسر مقامی ہی تھا، خوش اخلاقی سے ملا اور بتایا کہ خواتین پہلے آئیں اور ہال میں بوتھ بنا لیا، اب مجھے دو کمروں کے درمیان چکر لگاتے دن گزرے گا ۔ پوچھنے پر بتایا کہ افسر تو میں ہی ہوں، سیکورٹی فوج دیکھ رہی ہے، ابھی تک ان سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی، اللہ کرے آگے بھی خیریت ہی رہے ۔ پریذائڈنگ افسر نے بتایا کہ کل دس جوان ہیں، ان پر ایک حوالدار انچارج ہے اور تین پولنگ اسٹیشنز پر ایک میجر ذمہ دار ہے ۔

این اے 53 کے اس حلقے سے کل ۳۲ امیدوار ہیں جن میں عمران خان اور شاہد خاقان شامل ہیں مگر بوتھ پر پولنگ ایجنٹ ایک ہی نظر آیا ۔ دھان پان سے ہلکی داڑھی والے پولنگ ایجنٹ سے پوچھا کس پارٹی سے ہیں؟ جواب ملا، جماعت اسلامی ۔

باہر نکلے تو تینوں پولیس اہلکار اسی طرح اسٹینڈ والا پنکھا لگائے دو بیٹھے اور چہل قدمی کر رہا تھا۔ اور فوجی جوان بھاری گن لئے کھلے گیٹ کے درمیان پسینے سے شرابور کھڑا تھا ۔

اب یہ کون سوچے کہ یہ جمہوری عمل اس بھاری گن کے بغیر بھی مکمل ہو سکتا ہے ۔

سپر مارکیٹ کے مہنگے ریستوران میں ناشتہ کرنے پہنچے تو ویٹر نے ڈیڑھ ہزار کا بل تھماتے ہوئے مطیع اللہ سے پوچھا کہ ووٹ کاسٹ کر دیا ہے؟ مطیع اللہ نے غیر اردای طور پر اپنا انگوٹھا دکھاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا ۔ ویٹر نے ۳۵۰ روپے رعایت کر دی ۔

جمہوریت زندہ باد ۔ سول بالادستی پائندہ باد

اسلام آباد سے اے وحید مراد

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے