پاکستان24 متفرق خبریں

جوڈیشل کونسل میں جسٹس صدیقی ریفرنس

جولائی 30, 2018 4 min

جوڈیشل کونسل میں جسٹس صدیقی ریفرنس

Reading Time: 4 minutes

سپریم جوڈیشل کونسل کی پہلی بار کھلے کمرے میں سماعت کا آغاز ہو گیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر دائر کیا گیا ہے ۔ بظاہر پہلے دن کی کھلی سماعت میں نظر آیا کہ کونسل کو جسٹس صدیقی کے ریفرنس کا فیصلہ کرنے کی جلدی ہے۔ کونسل کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تین دن میں مکمل کرنا ہے۔

چیف جسٹس کی صدارت میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کر رہا ہے ۔ جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس بلوچستان، اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ بھی شامل ہیں ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آج جوڈیشل کونسل میں میں کیا کارروائی ہونی ہے، کیا شواہد ریکارڈ ہونے ہیں ؟ جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ آج جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں شواہد ریکارڈ ہونے ہیں، وکیل نے کہا کہ موکل کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک درخواست میں الزامات سے متعلق ریکارڈ لگایا گیا ہے، درخواست میں اعلی عدلیہ کے گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا گزشتہ سات سال کا ریکارڈ مانگا ہے، جو ججز سرکاری گھر کے ساتھ رہائشی الاؤنس لے رہے ہیں وہ ریکارڈ بھی مانگا ہے، وکیل نے کہا کہ ججز کے سرکاری گھروں پر تزئین و آرائش کے اخراجات کا ریکارڈ مانگا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو طول نہیں دینا چاہتے، جو الزامات ہیں ان کی روشنی میں جواب دیں، یہ ریکارڈ منگوانے کا کوئی مقصد نہیں ہے، کسی مخصوص جج کا بھی درخواست میں ذکر نہیں ہے، کسی جج کا ذکر ہوتا تو ریکارڈ منگواتے ۔

وکیل نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی لاکھوں روپے تزئین و آرائش کرانے کا الزام ہے، دوسرے ججز کے سرکاری گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کرتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انکوائری کا دائرہ اختیار اتنا وسیع نہیں ہوتا،سرکاری گھر کے تزئین و آرائش کے اخراجات کی لمٹ کو کونسل طے کرے گی، ٹرائل شروع ہو چکا ہے شواہد کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔

وکیل نے کہا کہ ہماری دوسری درخواست ریفرنس کے شکایت کنندگان سے متعلق ہے، شکایت کنندگان کے خلاف فوجداری اور عدالتی مقدمات کا ریکارڈ منگوایا جائے، دیکھا جائے کہ جب یہ گھر شوکت عزیز صدیقی کو الاٹ ہوا اس وقت کیا حالت تھی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے شواہد ریکارڈ کر لیتے ہیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق اس دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روسٹرم پر کھڑے اپنے وکیل حامد خان کے کان میں بات کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان اپنے موکل سے کہیں کہ اس طرح بات نہ کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ریکارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اپنا دفاع نہیں کر سکتا، کم سے کم یہ تاثر ملنا چاہیے کہ میرے ساتھ برابری کا سلوک ہوا ۔

چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ہم نے کون سا غلط اختیارات کا استعمال کیا، کسی کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکنا چاہتے، جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے کارروائی کیسے چلانی ہے، آپ کی مرضی سے کارروائی نہیں چلنی ۔پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے کہا کہ ان سے کہیے (جسٹس صدیقی کی طرف اشارہ) عدالت کو مخاطب نہ کریں ۔ چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کارروائی میں ان کو بولنے نہیں دیں گے ۔ چیف جسٹس نے شوکت صدیقی سے کہا کہ جو بات کہنی ہے اپنے وکیل کے ذریعے کریں ۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواستوں کی مخالفت  کی اور کہا کہ ریفرنس میں برائے راست الزامات معزز جج پر لگائے گئے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے مانگے گئے ریکارڈ کا ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں،

جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے الزامات بے بنیاد ہیں، وکیل نے کہا کہ سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کرنا جرم نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الزامات پر شواہد نہیں آئے تو کونسل کی کارروائی ختم کر دیں گے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس صدیقی کی ریکارڈ فراہمی کیلئے درخواستیں مسترد کر دی گئیں جس کے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے کئی محترم ججز بری ہوتے ہیں، ہم کسی کے لیے متعصب نہیں ہیں، آگے جا کر جواب دینا ہے، آگے جا کر ایسے منہ کالا نہیں کرنا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ شواہد کی ریکارڈنگ کا عمل  شروع کریں ۔ جسٹس صدیقی کے وکیل نے کہا کہ مجھے جرح کے لیے وقت دیں، کونسل اپنی کارروائی کل تک ملتوی کردے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں، جرح آج نہیں کرتے، ہم تو چاہتے ہیں کسی کے خلاف کیس نہیں تو وہ بری ہو ۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ تاثر ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو جلدی ہے ۔ جسٹس صدیقی نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کہا کہ میرا فیصلہ جلدی نہ ہو بلکہ انصاف ہو ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے ایک بار پھر ناراضی کا اظہار کیا اور وکیل حامد خان سے کہا کہ اپنے موکل سے کہیں کہ کونسل کا احترام کریں اور کھڑے ہو کر بات کریں ۔ اس کے بعد جسٹس صدیقی کونسل کی کارروائی کے دوران بار بار کھڑے ہوتے رہے ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف گواہ علی انور گوپانگ عدالت میں پیش ہوئے ۔ گواہ علی انور گوپانگ کا بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے