کالم

زرداری، شہباز شریف کو ووٹ دیں گے؟

اگست 2, 2018 4 min

زرداری، شہباز شریف کو ووٹ دیں گے؟

Reading Time: 4 minutes

کیا آصف زرداری، متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو وزارت عظمی کا ووٹ دیں گے ؟

نوشین یوسف

25 جولائی کو الیکشن 2018 کے انعقاد کے فورا بعد اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسے مسترد کر دیا گیا ۔ نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے الیکشن کو مسترد کیا ۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی ، جمعیت علماء اسلام ف ، ایم کیو ایم، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کیا۔
البتہ جب الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ہنگامی کل جماعتی کانفرنس اسلام آباد میں بلائی گئی تو پیپلز پارٹی نے اس میں شرکت سے اجتناب کیا۔الیکشن 2013 کو آر اوز کا الیکشن قرار دینے والے آصف علی زرداری بیک سیٹ پر ہی برجمان رہے ، البتہ زرائع سے خبریں لگوا دیں کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمان کو لفٹ نہیں کرائی ۔ لیکن جب اپوزیشن کا ایک مضبوط دھڑا اکھٹے ہو گیا تو پیپلز پارٹی بھی اس میں شامل ہو گئی ۔۔ لیکن شمعولیت سے قبل پارٹی کے وفد مختلف سیاسی جماعتوں سے ملے اور تاثر دیا کہ سب اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا ان کا کارنامہ ہے ، گو کہ اس سے قبل ہی اپوزیشن جماعتیں میاں اسلم کی رہائش گاہ پر منعقدہ اے پی سی میں اکھٹی ہو چکی تھیں۔ پھر اپوزیشن کی جماعتیں مزید متحرک نظر آئیں اور یک بعد ملاقاتیں ، اجلاس اور پھر ایاز صادق کی رہائش گاہ پر اے پی سی میں اکھٹی ہوئیں ۔ اپوزیشن کی بیٹھکوں میں پارٹی سربراہان شہباز شریف ، مولانا فضل الرحمان ، اسفندیار ولی ، محمود خان اچکزئی تو موجود رہے ، لیکن پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت ان اجلاسوں میں شریک رہی ۔ پی پی پی کی اعلی قیادت بلاول زرداری اور آصف زرداری دکھائی نہ دیے۔ آصف زرداری کراچی جبکہ بلاول اسلام آباد میں زرداری ہاؤس میں ہی مقیم رہے۔
ان دنوں کچھ دلچسپ چیزیں بھی سامنے آئیں ۔ ان میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا قیام بھی شامل ہے ۔ شہباز شریف نے حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی کے چھ ارکان کی حمایت حاصل کرنے سابق گورنر احمد محمود سے ملاقات بھی کی ، لیکن اس کے بعد خاموشی سادھ لی ، شائد بات نہیں بنی ۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ انھوں نے وفاق میں حکومت سازی کی مسلم لیگ ن کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے ۔ یہاں سوال اٹھا کہ 2013 میں پی ٹی آئی کو خیبر پختوانخوا میں حکومت سازی کی کھلی چھٹی دینے والی مسلم لیگ ن نے اچانک کیسے اپنے موقف میں تبدیلی لائی، اور وفاق میں پی ٹی آئی کو حکومت سازی سے روکنے پیپلز پارٹی سے مدد مانگی؟ اس بات کی مسلم لیگ ن کی جانب سے وضاحت نہیں دیکھنے میں آئی۔
اب زرا جائزہ لیتے ہیں عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو ملنے والے مینڈیٹ کا ۔ پی ٹی آئی کو خیبر پختوانخوا میں بھاری مینڈیٹ ملا، جس سے وہ وہاں با آسانی حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی ۔ پنجاب میں بھی اچھا خاصا مینڈیٹ پی ٹی آئی کے حصے میں آیا ، جو اسے حکومت سازی کے قریب لے گیا ۔ البتہ کراچی میں ایم کیو ایم اپنی اتھارٹی پی ٹی آئی کے ہاتھوں کھو بیٹھی۔ لیکن اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی 76 نشستیں لیکر نا قابل تسخیر فورس بن گئی ۔ بلوچستان میں نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل سامنے ابھریں ۔ لہذا اس الیکشن میں بڑا دھچکہ مسلم لیگ ن کو لگا جس سے نہ صرف وفاق چھن گیا بلکہ پنجاب بھی چھن چکا ہے ۔ پی ٹی آئی وفاق ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کر لے گی ، اور بلوچستان میں حمکران اتحاد میں شامل ہو گئی ۔ جبکہ سندھ کی حکمرانی پیپلز پارٹی کے پاس رہے گی۔ اس سے اپوزیشن جماعت میں شامل پیپلز پارٹی کا اطمینان سمجھ میں آتا ہے جسے پی ٹی آئی کے بعد حکومت سازی کا بھر پور موقع میسر آیا ۔ پی پی نے لیاری میں بلاول زرداری کی شکست پر زرا رولا ڈالا ، لیکن مالاکنڈ میں شکست پر مکمل چپ سادگی ، وجہ شائد سندھ میں آسانی سے لوٹتی حکومت ہے ۔ واپس وفاق میں حکومت سازی اور اپوزیشن کے کردار کی جانب آئیں تو پیپلز پارٹی کی درجہ دوئم کی قیادت بہت متحرک ہے ، اور 43 نشستیں اور 68 لاکھ ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی، 64 نشستیں اور 1 کروڑ 28 لاکھ ووٹ کا قابل عزت مینڈیٹ لینے والی مسلم لیگ ن پر ہاوی ہونے کا بھرپور عمل کرتی نظر آئی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں آصف اور بلاول زرداری کا انتظار ضرور رہا لیکن انھوں نے اس فورم پر شرکت نہ کرکے باور ضرور کرا دیا کہ یہ ان کے مرتبے کے شایان شان نہیں ۔
اب دلچسپ موڑ یہ سامنے آرہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم نامزد کرتے ہیں تو کیا بلاول اور آصف زرداری انھیں ووٹ دیں گے؟ جب قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی تقرری کی بات ہو گی تو کیا پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے راستہ باکل صاف چھوڑے گی اور کوئی چھوٹی موٹی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ؟ کیونکہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے چئیرمین شپ چھینے جانے کا عمل ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا۔
کیا ہم خیال اپوزیشن متحدہ اپوزیشن بن پائے گی ؟آئندہ آنے والے دن اس حوالے سے بہت اہم ہوں گے  کہ اپوزیشن جماعتیں کس حد تک ساتھ چلتی ہیں، اور کہاں کہاں سمجھوتوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے