کالم

خیالی اور حقیقی اڑن کھٹولے

اگست 30, 2018 4 min

خیالی اور حقیقی اڑن کھٹولے

Reading Time: 4 minutes

بچوں میں تخیلاتی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کے لئے ہر سماج نے اپنی روایات کے مطابق لوریاں،گیت اور کھیل متعارف کروائے تھے۔ ان کی بدولت ذہنوں میں تجسس کو بڑھاوا دیا جاتا۔ خیالات کی دنیا بسانے کی جانب راغب کرنے کی کوششیں ہوتیں۔
دوروز سے اپنی یادداشت پر بہت زور دیتے ہوئے میں بچپن میں سنا وہ Refrain پورا یاد نہیں کر پا رہا ہوں جو کئی برسوں تک تقریباََ روزانہ ہی اپنے کئی شفیق بزرگوں سے سننے کو ملتا تھا۔ یہ بزرگ بستر پر لیٹے ہوتے تو بچے ان کے پائوں پر بیٹھ جاتے۔ بزرگوں کی ٹانگیں جھولے کی صورت اختیار کرلیتیں۔ ’’ہو نٹیں مائیاں کھنڈ کھیر کھائیاں – کھنڈ کھیر مٹھی…‘‘اور پھر نہ جانے کیا۔ اس Refrain کے آخری مصرعے کے بعد بچے کو فضا میں بلند کردیا جاتا۔
کئی بزرگ اس کھیل کے ذریعے بچوں کو ان کی پسند کے شہر کو ’’فضا سے دکھانے‘‘ کی کوشش کرتے۔ یوں محسوس ہوتا کہ ٹانگوں کو ایک خاص ردھم کے ساتھ ہلاتے ہوئے کسی اڑن کھٹولے کو فضا تک پہنچانے کی کاوش ہورہی ہے۔ بچہ اس اڑن کھٹولے کا تنہا مسافر ہے اور اپنی ’’منزل‘‘ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے وہ فضا سے نظر آنے والے مناظر کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
18 اگست 2018 کے روز عمران خان صاحب کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے تحریک انصاف بھی وطنِ عزیز میں Feel Good Mood کو پروان چڑھانے کے لئے چند اڑن کھٹولے متعارف کروا رہی ہے۔ اڑن کھٹولے کا تذکرہ میں اس بحث کی وجہ سے ہرگز کرنے پرراغب نہیں ہوا جس کے ذریعے ہمیں یقین دلایا جارہا ہے کہ وزیر اعظم اپنے دفتر سے بنی گالہ والے گھر تک جانے کے لئے جو ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں وہ سادگی اور کفایت شعاری کی بھرپور علامت ہے۔
اس سفر کو وزیر اعظم سڑک کے ذریعے طے کریں تو سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے طویل راستے پر روٹ لگانا پڑے گا۔ وزیر اعظم کی گاڑی کے آگے اور پیچھے کم از کم 25سے زائد گاڑیوں پر مشتمل ایک کاررواں بھی ہوگا۔ راستے بند ہوں گے۔ لوگوں کو اذیت محسوس ہوگی۔ روٹ لگانے اور کاررواں کو رواں رکھنے کے لئے بے تحاشہ پٹرول بھی خرچ ہوگا۔
سادگی اور کفایت شعاری کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے لہذا فیصلہ ہوا کہ ہیلی کاپٹر استعمال ہو۔ میرے بھائی فواد چودھری صاحب نے بطور وزیر اطلاعات ہمیں یہ بھی بتادیا ہے کہ ہیلی کاپٹر فی کلومیٹر 55سے 60روپے کے درمیان پیٹرول خرچ کرتا ہے۔ بچت ہی بچت ۔رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے میڈیا والے مگر اب ایوی ایشن صنعت سے وابستہ افراد کو ڈھونڈ کر وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ تک کے سفر پر اُٹھے اخراجات کا حساب لگارہے ہیں۔
پنجاب کے وزیرا علیٰ عثمان بزدار صاحب البتہ اس ضمن میں خوش نصیب ٹھہرے۔ عمران خان صاحب نے انہیں تعینات کرتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ موصوف کا تعلق پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے سے ہے۔ ان کے گائوں میں بجلی بھی نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی لیکن انہیں اس عہدے کے لئے مختص جہاز بھی ملا۔ بزدار صاحب نے اپنی فیملی سمیت اس میں سفر کرکے تصویریں اتروائیں۔ جہاز کی Tryہوگئی۔ اب وہ فضائی سفر کے ذریعے ہی میاں چنوں کسی دوست کے ہاں تعزیت کے لئے جاتے ہیں۔لگے ہاتھوں وہاں کے ہسپتال کا معائنہ بھی کرلیتے ہیں اور واپسی پر پاکپتن رکتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں بہت ہی توانائی سے بہتے راوی اور ستلج کے درمیانی خطے میں قائم یہ شہر جو کبھی ایودھن کہلاتا تھا اور بابا فرید کی وجہ سے پاک پتن ہوا اب پاکستان کا ’’روحانی دارالحکومت‘‘ بن چکا ہے۔عمران خان حکومت کے اراکین کو اپنی روح کو گرمائے رکھنے کے لئے یہاں موجود بابا فرید کے دربار پر حاضری دینا ضروری ہوگی۔
عمران خان صاحب اور عثمان بزدار کے لئے ہیلی کاپٹروں کا بندوبست ہوگیا۔ مجھ ایسے خاک نشینوں کو لیکن سرکار مائی باپ کی وہ مشفق ٹانگیں میسر نہیں جو مجھے جھولاتے ہوئے فضا میں تھوڑی دیر کو بلند کرتے ہوئے خوش گوارخیالات پر مبنی دنیا میں لے جائیں۔
ہمیں بہلانے کو بہت سے خیالی اڑن کھٹولوں کی ضرورت ہے۔ بچپن میں ایک گانا سنا تھا جس میں اک اڑن کھٹولے نے آنا اور ’’لال پری کو‘‘ لانا تھا۔ جو ’’لال پری‘‘ اس حکومت کے اصل اڑن کھٹولے نے لانی ہے وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہے۔ اس دولت سے لندن کے ایون فیلڈ جسے پوش علاقوں میں کئی پاکستانیوں نے فلیٹ خرید رکھے ہیں۔ نشاندہی ابھی تک لیکن صرف شریف خاندان کے فلیٹوں کی ہوئی ہے۔ لندن کے علاوہ ایک شہر دوبئی بھی ہے۔ وہاں کی کئی قیمتی جائیدادیں بھی پاکستانیوں کے زیر ملکیت بتائی جارہی ہے۔
وزیر اعظم صاحب نے شہزاد اکبر نامی ایک وکیل کو اپنا معاون خصوصی مقرر کیا ہے ۔ یہ صاحب سنا ہے کبھی احتساب بیورو کے وکیل بھی تھے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو پاکستان میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کے خلاف FIR درج کرواتے ہوئے ڈرون حملے رکوانے میں مصروف ہوگئے ۔ یہ حملے مگر رکے نہیں ۔ ان کی تعداد میں باالآخر کمی ہوئی تو وجہ اس کی اکبر صاحب کی جانب سے لکھائی FIR نہیں تھی۔
اب یہ صاحب ’’قوم کی لوٹی ہوئی‘‘ دولت واپس لانے کے فریضے پر مامور ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اپنا فرض نبھانے کے لئے ان کا دورئہ برطانیہ بھی ضروری تھا۔ وہ ہو چکا ۔ وہاں وہ کس جاسوس یا برطانو ی حکومت کے اہلکار سے ملے اس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔ شاید ان کا TA/DA ادا کرنے سے قبل عمران حکومت کے کھاتہ بردار معلوم کر لیں ۔
ہمارے لئے اگرچہ ایک اڑن کھٹولہ تیار کردیا گیا ہے جو قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو لال پری کی صورت لائے گا۔اس وقت تک ’’ہونٹیں مائیاں-کھنڈکھیر کھائیاں-کھنڈ کھیر مٹھی…‘‘ والے Refrain سے گزارہ کریں۔ اگرچہ اس کالم کے اختتام تک پہنچتے ہوئے مجھے یاد یہ بھی آگیا ہے کہ ’’کھنڈ کھیر‘‘تو ’’مٹھی‘‘ ہوتی ہے لیکن ’’بابے دی ہٹی؟‘‘ کھٹی۔ تاہم میرا ذہن یہ طے نہیں کر پارہا کہ کہ بابے کی دوکان ’’کھٹی‘‘ تھی یا اسے ’’لوٹا‘‘ گیا تھا۔’’کھٹی‘‘ اور ’’لٹی‘‘ کے درمیان پھنس کے رہ گیا۔ شہزاد اکبر کی سجائی دوکان میں تیار ہوئی کھیر بھی آخر میں کہیں ’’کھٹی‘‘ ہی ثابت نہ ہوجائے ۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے