کالم

پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں؟

اگست 30, 2018 2 min

پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں؟

Reading Time: 2 minutes

سہیل رشید

پرانا پاکستان بننے سے بھی بارہ برس پہلے کی بات ہے ۔ سال 1935 اور اپریل کی پہلی ۔ لاہور کی گلیوں میں سورج سے بھی پہلے منگو کوچوان نکل آیا ۔ ارے وہی منٹو کے افسانے والا کردار منگو کوچوان جس نے کسی سے سن رکھا تھا کہ اپریل کی پہلی سے نیا قانون نافذ ہو گا انڈیا ایکٹ ۔ منگو سمجھ بیٹھا اس قانون کے بعد گوروں کے راج سے آذادی ملے گی اور یہیں سے کہانی کا آغاز ہوا ۔ منگو بے تابی سے اپریل کی پہلی کا انتظار کرتا رہا تھا اور آج اس کی مرادوں بھری گھڑی آ پہنچی تھی ۔ منگو آج سب کچھ بدلا دیکھنا چاہتا تھا۔۔ تانگہ سجایا ، گھوڑے پر نئی کلغی بھی سجائی ۔۔سورج نکلا تو منگو کو اس کا پرانا رنگ بھی نہ بھایا تھا ۔ دکانیں ، لوگوں کے کپڑے سب کچھ پرانا تھا لیکن منگو کی امید نئی ۔۔ ’’کم سے کم آج میں گورے لاٹ صاحب کا غلام نہیں ، اپنی مرضی کروں گا‘‘ منگو من ہی من میں سوچے جاتا تھا ۔ کہانی کا پورا لطف منٹو کے افسانے میں ہی آتا ہے میں مختصر خلاصے پر اکتفا کئے دیتا ہوں ۔ منگو کو انگریزوں سے روز ملنے والی جھڑکیاں بہت گراں گزرتی تھیں اور پچھلے سال ایک گورے بابو سے پڑی مار کے زخم بھی روح پرتازہ تھے ۔ آج نیا قانون پاس ہونے کے بعد اتفاق سے منگو کو پہلی سواری وہی انگریز بابو ملا ۔ ماسی اکڑ کے ساتھ ہاتھ میں چھڑی لئے منگو کو رکنے کا اشارہ کیا ۔ منگو من ہی من میں اس سے حساب چکانے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ گورے بابو سے ہیرا منڈی تک کے پورے پانچ روپے مانگ لئے ۔ جب گورے نے اکڑ دکھائی تو منگو نے گورے بابو کو پھینٹی لگانا شروع کر دی ۔ منگو کوچوان مکے برسائے جاتا اور چلائے جاتا

پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں

پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں

منگو کوچوان حساب چکا ہی رہا تھا کہ ملکہ برطانیہ کے وفادار سپاہی آ پہنچے ۔۔ منگو پہلی اپریل کی دہائی دیتا ہی رہ گیا لیکن وہ اسے گرفتار کر کے تھانے لے گئے ۔ منگو کو یہ نقطہ سمجھ آ تو گیا کہ ایسی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی جیسی وہ سمجھ رہا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔

منٹو کا ’’نیا قانون’’ نامی یہ افسانہ بچپنے میں کہیں پی ٹی وی پر سرمد صہبائی کے ایک قسط والے ڈرامے کی صورت میں بھی دیکھا تھا۔ اشرف خان نے منگو کوچوان کا کردار ایسی خوبصورتی سے نبھایا تھا کہ آج بھی ذہن میں نقش ہے ۔ کسی تبدیلی کے نام پر عوام کے ساتھ جب ’’واردات‘‘ ہوتی ہے تو اس کردار کا وہ گول مٹول بھولا سا چہرہ آنکھوں کے سامنے آہی جاتا ہے ۔ نیا پاکستان بننے کے بعد بھی یہی کیفیت ہے ۔ کہیں پاکپتن میں وزیر اعلی کے اعزاز میں دکانیں بند کرتے منگو دکھائی دیتے ہیں تو کبھی راولپنڈی کے بھابڑہ بازار میں وزیر ریلوے کے رعب سے منگو کوچوان اپنی موٹر سائیکلیں ٹوٹتے دیکھتے ہیں ۔ اسلام آباد کی فضاوں میں ہیلی کاپٹر کی ڈگ ڈگ منگو کو غریب عوام کی نمائندہ سادگی والی حکومت کے خواب کو توڑ کر جگا دیتی ہے تو کہیں کوئی منگو ٹریفک وارڈن کے ہاتھوں پٹتے ہوئے حیرت کا پہاڑ بنے پوچھ رہا ہے

’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں‘‘؟؟

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے