کالم

چمچہ نہیں نظریاتی بنئیے

ستمبر 2, 2018 4 min

چمچہ نہیں نظریاتی بنئیے

Reading Time: 4 minutes

رعایت اللہ فاروقی

شخصیت پرستی کا مرض نوعمری تک رہے تو ٹھیک ہے۔ بسا اوقات کسی شخصیت سے متاثر ہونا ہی حقیقی نظریاتی سفر کا آغاز ثابت جاتا ہے۔ میں پہلی بار جس زندہ و جاوید شخصیت سے متاثر ہوا تھا وہ 1985ء میں جے ٹی آئی یعنی جمعیت طلبہ اسلام کے اس وقت کے صدر نجیم خان ایڈوکیٹ تھے جو صوابی کے رہنے والے تھے۔ یہ مولویوں کی طلبہ تنظیم کے غیر مولوی صدر تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے 90 فیصد صدور اور جنرل سیکریٹریز مدرسے کے بجائے یونیورسٹیز سے رہے ہیں لیکن پھر بھی کالج یا نیورسٹیز کی سطح پر اس تنظیم کو مقبولیت نہیں دلوا سکے۔ نجیم خان اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کر رہے تھے۔ میں پندرہ برس کا تھا جب ان کی ایک تقریر سن کر "شکار” ہوگیا۔ اسی سال میں نے گھر میں یہ دھماکہ کرکے سب کو حیران کردیا

"میں ایک مہمان کو مدعو کرنا چاہتا ہوں لھذا دعوت کا انتظام کیا جائے”

ابا حضور نے حیرت سے اماں حضور کو دیکھا اور اماں حضور نے ابا حضور کو۔ کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ان کے کسی بچے نے اپنا باقاعدہ قسم کا مہمان پورے پروٹوکول کے ساتھ لانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ابا حضور کا خیال تھا کہ مدرسے کے کسی ساتھی کو مدعو کرنا چاہتا ہوگا سو انہوں نے مہمان کے لئے صیغہ واحد استعمال کرتے ہوئے پوچھا

"تمہارا مہمان کون ہے ؟”

عرض کیا

"نجیم خان ہیں”

"تمہارے مدرسے میں پڑھتا ہے ؟”

"نہیں وہ بڑی عمر کے ہیں اور وکیل بن رہے ہیں”

"تم دعوت کیوں کرنا چاہتے ہوں ان کی ؟”

"وہ جے ٹی آئی کے صدر ہیں”

یہ سن کر حیران سے ہوئے کہ یہ لفنگا یہ کرنے کیا لگا ہے ؟ مگر خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ دعوت کی منظوری دیدی۔ نجیم خان ہمارے گھر آئے۔ ابا حضور نے بہترین مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے مہمان کو پورے اعزاز کے ساتھ نمٹایا۔ یہ نہیں کیا کہ مہمان سے ہاتھ ملا کر کچھ دیر بیٹھے اور پھر کہیں نکل لئے بلکہ شروع سے آخر تک خود ہی میزبان رہے۔ کیونکہ جانتے تھے کہ ان کا لونڈا اپنے قد سے بڑا بندہ لے آیا ہے جسے اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

عمر جوں ہی تھوڑی سی بڑھی نجیم خان ایڈوکیٹ کو بھول بھال گیا۔ کتابوں سے رشتہ کم عمری سے ہی قائم چلا آرہا تھا سو بیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعور کسی اور ہی سطح پر پہنچ چکا تھا۔ اور اس سطح پر شخصیت نہیں صرف نظریات سے ہی متاثر ہونے کی گنجائش تھی۔ چنانچہ آگے کے سفر میں اگر کوئی شخصیت اچھی لگی بھی تو اسے نظریے پر فوقیت کسی صورت نہ دی۔ مثال کچھ اور شخصیات کی بھی دی جا سکتی ہے مگر آج میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ورکرز سے مخاطب ہوں سو عرض کردوں کہ مثلا میں مولانا فضل الرحمن کی سیاسی اور علمی دونوں ہی طرح کی قابلیت کا دل کی گہرائی سے معترف ہوں۔ لیکن نظریے پر انہیں بھی فوقیت نہیں دیتا۔ اسی طرح کچھ جینئن جماعتیے ہیں جو سراج لالہ کو نظریے پر فوقیت نہیں دیتے۔ میں سراج لالہ کو کتنی ہی بار چٹکیاں بھر چکا مگر حرام ہے جو یہ جماعتیے ری ایکٹ کرتے ہوں۔ جب بھی ری ایکٹ کیا غیر نظریاتی جماعتیوں نے کیا۔ جو ردعمل نہیں دیتے وہ اس لئے نہیں دیتے کہ ان کے نزدیک میرے رائٹ ونگ نظریات اصل ترجیح رکھتے ہیں۔ حلفیہ کہتا ہوں کہ جس دن میں نے رائٹ ونگ نظریات کو نشانہ بنایا یہ خاموش جماعتیے آستینیں چڑھا لیں گے کہ تیری ایسی کی تیسی ! آتو سہی ذرا !

بالکل اسی طرح جے ٹی آئی کے بھی کئی لوگ میری فرینڈ لسٹ پر چپ چاپ بیٹھے ہیں۔ حتی کہ جے ٹی آئی کے ایک سابق صدر کئی برس سے میری کوئی ایک پوسٹ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن خاموشی اس درجے کی ہے کہ کبھی انبکس میں خود کو جے ٹی آئی کے سابق صدر کی حیثیت سے متعارف کرا کر متاثر کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ تو میں جانتا ہوں کہ وہ کون ہیں ورنہ حرام ہے جو انہوں نے خود کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہو۔ ہر سال ایک کمنٹ کرتے ہیں اور وہ بھی بس اتنا "ماشاءاللہ” اس سال کا ماشاءاللہ ابھی دوچار روز قبل کہہ کر فارغ ہوچکے ہیں، اب اگلی اگست میں فرمائیں گے۔ میں نے گزشتہ سالوں میں جب بھی مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنایا جے ٹی آئی کے یہ حضرات بھی خاموش ہی رہے۔ کیونکہ ان کے لئے بھی میرا مولانا پر تنقید کرنا معمولی بات تھی۔ ترجیح ان کی بھی نظریہ ہی ہے۔

چاہے یہ حضرات ہوں خواہ نظریاتی جماعتیے یہ کبھی بھی سراج لالہ یا فضل الرحمن پر تنقید کا برا نہیں منائیں گے۔ کیونکہ جانتے ہیں کہ یہ لیڈر جتنے بھی بڑے ہوجائیں نظریے کے مقابلے ان کی حیثیت یہ ہے کہ اگر قربانی کا لمحہ آجائے تو قربان فضل الرحمن اور سراج لالہ کو ہونا ہوگا نظریے کو نہیں، لھذا نظریہ اصل اور یہ دونوں فرع ہیں۔ اگر یہ نظریے پر قربان ہوئے تو امر ہوجائیں گے اور اگر نظریہ ان پر قربان ہوگیا تو یہ فنا ہوجائیں گے۔ ایسے میں حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد وہ بھی خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کے نوجوان نظریے کی بجائے شخصیات کا ڈھول پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ اور نظریے کے بجائے ان شخصیات کی خاطر ترک تعلق بھی کر لیتے ہیں۔ بھائیو ! چمچہ نہیں نظریاتی بنئے !

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے