پاکستان کالم

اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی بحث

ستمبر 3, 2018 4 min

اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی بحث

Reading Time: 4 minutes

‎سینیٹ اجلاس میں الیکشن میں دھاندلی پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسٹیبشلمنٹ اور اشرافیہ نے پارلیمان کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا۔ اب ایک نیا طریقہ کار لایا گیا ہے کہ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جایئں اور آگے کٹھ پتلیاں کھیلیں۔ ہم جولائی کے الیکشن کی بات کر رہے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ اب نیا ڈرامہ شروع کیا گیا، اگلے الیکشن میں دھاندلی کا سامان ابھی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا مخالف نہیں۔ لیکن سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے لیے بنایا گیا طریقہ کار درست نہیں۔ آر ٹی ایس نظام فیل ہو گیا ، کیا گارنٹی کہ ای ووٹنگ کا نظام ہیک نہیں ہو گا۔
‎مشاہد اللہ خان بولے ایک سال قبل منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ایک سازش کے تحت زاتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، نواز شریف کے وزیر خزانہ ، وزیر خارجہ، وزیر اطلاعات کے خلاف سازش کی گئی، یہ سب الیکشن سے قبل دھاندلی تھی۔ قبل آز الیکشن دھاندلی تھی کہ نواز شریف کی جماعت کو جیتنے نہ دیا جائے۔ لیکن اتنے شدید ریاستی دباو کے باوجود عوام نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔ تمام ادارے ہمارے خلاف استعمال کئے گئے۔ الیکشن کے دن چھ بجے فیصلہ آیا کہ نواز شریف کو ووٹ پڑ گئے ہیں، جب ابتدائی نتائج موصول ہوئے تو مسلم لیگ ن جیت رہی تھی، سیلیکٹ وزیر اعظم بری طرح ہار رہے ہیں۔ انتخابات شفاف ہوتے تو ہم اس حکومتی بنچز پر بیٹھے ہوتے۔ وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ وہ سیلیکٹ پی ایم ہیں ، اس لیے انھوں نے بلاول کی تقریر پر ڈیسک بجائے۔ ایسی حکومت پر لعنت بھیجتا ہوں ، ویسے لعنت لوگوں پر بھیجنی چاہیے۔ نتائج تبدیل کرکے آنے والے کہتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست بنائیں گے۔ پولنگ اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمروں پر کپڑا ڈال دیا گیا ، یا کیمرے کا رخ بدل دیا گیا۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جو امپائیر کی انگلی پر بیٹھ کر آئے ہیں ، انھیں یہ انگلی چبھے گی۔ الیکشن کے دن جو تین لاکھ 70 ہزار سیکورٹی کے نام پر ڈیوٹی دے رہے تھے، وہ سیکورٹی کر رہے تھے یا پریزائیڈنگ افسر یا پولنگ ایجنٹس کی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جہاں وزیر اعظم اٹھ آٹھ گھنٹے گزارتے ہیں، وہ انکی آخری پناہ گاہ ہے، وزیر اعظم وہیں رہیں گے کیونکہ وہ عوام کا سامنے نہیں کر سکتے۔ نواز شریف آج سولین بالادستی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد موجودہ حکمرانوں کے ساتھ بھی بہت کچھ ہو گا، یہ تو مٹی کے پہلوان ہیں ، انکا تو حشر ہو جائے گا، حکمران پھر ہماری پناہ میں آئیں گے ، اور ہم تب انھیں پناہ دیں گے، کیونکہ ہم سولین بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ آج نواز شریف ، مریم نواز جو قربانی دے رہی ہیں، وہ قربانی رنگ لائے گی۔ ہم اکھاڑ پھینکیں گے ان خیموں کو جہاں سازش ہوتی ہے۔
‎سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ الیکشن کے بارے میں بین الاقومی دنیا نے بہت ہولناک لکھا ہے جو باعث شرم ہے ۔مجھے اپنے ملک اور تمام اداروں کا عزت اور وقار عزیر ہے، نہیں چاہتا کہ میرے اداروں کا دنیا میں تمسخر اڑایا جائے۔ کسی نے کارٹون نہیں بنایا کہ بیلٹ بکس سے پاکستان کے الیکشن کا نتیجہ نکلا، بلکہ انھوں نے ایک جوتا بنایا جس میں سے وزیر اعظم نمودار ہوا۔ دنیا میں پاکستان کی نمائندگی جوتے سے نکلا وزیر اعظم کرے گا؟ نتائج کو آپریشن رد و بدل کے نام سے لکھا گیا۔ لیکشن دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے، مکمل انتظامی اور مالی اختیارات دئے جائیں، تاکہ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے کو بے نقاب کیا جائے۔
‎سینیٹر حاصل بزنجو نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے ایک سال قبل دھاندلی شروع ہو گئی تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بدنام کرایا گیا کہ یہ سب چور ہیں۔ اب معاملہ آگیا ہے کہ بیانیہ کس کا ہو گا۔ اگر پیپلز پارٹی سیاست کرنا چاہتی ہے تو اسے خلائی مخلوق کے بیانیہ پر جانا ہو گا۔ مسلم لیگ ن کو سیاست کرنی ہے تو انکے طے کردہ بیانیہ پر چلنا ہو گا۔ کوئی سیاسی جماعت کچھ کرنا چاہے تو وہی دائرہ ہو گا جو وہ طے کریں۔ آج ہم مارشل لاء دور سے بد تر پوزیشن میں ہیں۔بلوچستان میں دو آر اوز کو ایف سی کیمپ لے جایا گیا اور کہا گیا کہ بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائیں، ان آر اوز نے ٹھپے لگانے سے انکار کر دیا ، ان آر اوز کی جرت کو سلام کرتا ہوں۔ آرمی چیف کی توجہ چاہتا ہوں، اس مرتبہ الیکشن میں جتنے پیسے بٹورے گیے ، ہمیں اس کی تحقیقات کرنا ہو گی۔ اگر خفیہ ادارے اس کام پر لگ گئے ہیں تو ملک کا خدا حافظ ہے۔
‎سینیٹر اعظم موسی خیل نے کہا کہ ثابت ہو گیا ہی کہ الیکشن میں ادارے مداخلت کر رہے تھے۔ ہم ایجنسیوں کی مداخلت سے ہارے ہیں۔ پشتون قیادت کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا گیا۔ ملک میں اداروں اور جمہوریت کی اور اداروں اور ایسا ج جماعتوں کے درمیان جنگ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبشلنبٹ کا ساتھ دیتی ہیں یا عوام کا۔
‎سینیٹر طاہر بزنجونے کہا کہ یہ الیکشن ارینجڈ نہیں جبری شادی ہے۔ مولوی سے بزور شمشیر نکاح پڑھوایا گیا ، وہ بھی گواہوں کی غیر موجودگی میں۔
‎سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ جولائی میں ملک میں انتخابات کے نام پر سب سے بڑی سیلیکشن ہوئی۔ فوجی اسٹیبشلمنٹ نے پہلے سیاسی جماعتوں کو توڑنے کا عمل شروع کیا ، نئے سیاسی اتحاد بنائے۔ الیکشن سے قبل سیکورٹی کے حالات خراب کیے گئے۔ چیف للیکشن کمیشنر سوئے ہوئے نہیں تھے ، وہ چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ الیکشن جنرل مشرف اور جنرل ضیاء کے ریفرینڈم کو بھی مات دے گئے۔ اصل مقابلہ اسٹیلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کے درمیان تھا، اس مقابلے میں اسٹیبشلمنٹ ہار گئی ، جمہوری قوتیں جیت گئیں۔ ملک میں دوبارہ الیکشن کرایا جائے ۔
‎سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ حکومت اپنے سو دن کے پلان میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کو شامل کرے۔
‎قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی دوبارہ قائم کی جائے۔ عمران خان وزیراعظم ہیں، انھیں عزت دیں۔ پرویز رشید کی سیاسی جماعت کے لیڈر کی تو پیدائش ہی جوتے میں ہوئی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے