متفرق خبریں

ٹی وی ریٹنگ سپریم کورٹ میں

ستمبر 5, 2018 6 min

ٹی وی ریٹنگ سپریم کورٹ میں

Reading Time: 6 minutes

بول نیوز کی جانب سے ریٹنگ میں شامل نہ کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی جس میں ملک کے بڑے ٹی وی چینلز کے مالکان پیش ہوئے ۔ ٹی وی چینلز مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) اور ریٹنگ جاری کرنے والی کمپنی میڈیا لاجک پر چیف جسٹس سخت برہم دکھائی دیے ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق تین رکنی عدالتی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پی بی اے اور میڈیا لاجک نے اجارہ داری قائم کی ہے اور یہ کارٹل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت پی بی اے کی رکنیت نہ رکھنے والے ٹی وی چینل کو ریٹنگ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔

عدالت کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد میڈیا مالکان اور پیمرا حکام کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزارت اطلاعات کے سیکرٹری نے کی ۔ اجلاس میں تمام شراکت داروں کو طلب کیا گیا تھا، اس میں سب متفق ہوئے اور سفارشات تیار کی گئی ہیں ۔ اب پی بی اے و میڈیا لاجک کے معاہدے کے تحت ٹی وی ناظرین کی تعداد کا تعین ہوگا مگر اس پر نگرانی کیلئے پیمرا کا بھی کردار ہوگا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب مان گئے ہیں یا کسی کو اعتراض ہے؟ وکیل نے بتایا کہ کیبل آپریٹرز کو تحفظات ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے ۔ چیف جسٹس نے پی بی اے کے چیئرمین میاں عامر (دنیا ٹی وی کے مالک) سے پوچھا کہ آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں، سب اتفاق رائے سے ہوا ہے نا؟ ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق میاں عامر نے کہا کہ ہم سے جس مسودہ پر اتفاق رائے ہوا تھا عدالت میں وہ پیش نہیں کیا گیا ۔ پی بی اے کے وکیل نے بتایا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ مسودے میں پیمرا نے 14 شقیں شامل کی ہیں اور ہمیں علم ہی نہ ہوا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم چودہ میں سے دس شقیں کاٹ دیں تو چار پر مک مکا ہو سکتا ہے؟ ۔ ریٹنگ کمپنی میڈیا لاجک کے وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ میڈیا لاجک کو ٹی وی چینلز کی ریٹنگ جاری کرنے کی اجازت دی جائے، سارے چینل مالکان بھی یہی چاہتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ توہین عدالت کرنے والے کو اجازت دے دیں؟ وکیل نے کہا کہ میڈیا لاجک نے توہین عدالت نہیں کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آج سماعت ان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے رکھی تھی، اگر معافی نہیں مانگتے تو فرد جرم عائد کرتے ہیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیا لاجک کے مالک اپنے جرم کا اعتراف کیا، انہوں نے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی اور معافی بھی مانگی، خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا ۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میڈیا لاجک کے مالک سلمان دانش نے اعتراف جرم نہیں کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا لاجک کو ریٹنگ جاری کرنے سے روکنے کے حکم میں ترمیم نہیں کریں گے، پی بی اے نے اس کمپنی سے ملی بھگت کر رکھی ہے، گٹھ جوڑ سے ایک میڈیا لاجک نے اجارہ داری بنائی ہوئی تھی ۔ پی بی اے اور میڈیا لاجک کا گٹھ جوڑ ٹوٹے گا تب یہ ریٹنگ جاری کرنے پر اجارہ داری ختم ہوگی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا لاجک کا جو کنڈکٹ ہے اور جس رعونت کا اس نے مظاہرہ کیا وہ بھی دیکھ رہے ہیں، یہ لوٹتے رہے اور پیسہ بناتے رہے ۔ قواعد بنیں گے، پیمرا ریگولیٹر ہوگا اور کمپنیاں ریٹنگ دیں گی ۔ یہ کارٹل اور اجارہ داری ہے ۔ قانون کی خلاف ورزی ہے ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی بی اے کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ اس مقدمے میں سپریم کورٹ میں کھڑی ہو، ان کے الیکشن ہونے چاہئیں، اس کو سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کے پاس بطور کمپنی رجسٹرڈ ہونا چاہئے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ کارٹلائزیشن ہے کہ جس چینل کے پاس پی بی اے کی رکنیت نہیں اس کو میڈیا لاجک ریٹنگ نہ دے ۔ میڈیا لاجک کے وکیل نے کہا کہ اس مسئلے کو سمجھ کوئی نہیں پا رہا، مجھے وقت دیں تاکہ سمجھا سکوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پی بی اے اور میڈیا لاجک کو اجارہ داری قائم نہیں کرنے دیں گے ۔

کیبل آپریٹرز کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم سے نہیں پوچھا گیا، ہم نے بھی ریٹنگ میں بتانا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس طرح کریں ساری کیبل بند کر دیں، آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہر آدمی اس معاملے میں کودنا چاہتا ہے جس سے اس کا تعلق نہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ غیر قانونی کام میں ملوث ہو رہے ہیں، آپ نے اپنے لائسنس کی شرائط پڑھی ہیں؟ ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کیبل آپریٹرز کو جو تین چار سی ڈی چینلز چلانے کی اجازت ہے ان پر اشتہارات نہیں چلائے جا سکتے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مسئلہ غیر ملکی مواد کا بھی ہے جو بہت زیادہ چلایا جا رہا ہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ قانون کے مطابق دس فیصد غیر ملکی مواد چلایا جا سکتا ہے مگر 25 فیصد نشر کیا جا رہا ہے، چھ چینلز کو اس پر نوٹس جاری کئے گئے ہیں ۔

میاں عامر نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن ہے جو اشتہارات کو ڈیل کرتی ہے، وہ طے کرتی ہے کہ لوکل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پیسہ کس شرح سے خرچ کرنا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک کمیٹی نے ریٹنگ کمپنی کو ٹھیکہ دینے کیلئے اشتہار جاری کیا، چار کمپنیوں نے اپلائی کیا اور میڈیا لاجک کو ملا ۔ اشتہار ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دینا ہوتا ہے وہ خود بھی دیکھتے ہیں کہ کون سے چینل کی کیا ریٹنگ ہے کیونکہ پیسہ ان کا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے پیچھے کون ہے وہ بھی معلوم ہے، میڈیا مالکان ہی ہیں، انہی کی ایڈ ایجنسیاں ہیں ۔ میاں عامر نے کہا کہ چینل مالکان میں سے صرف ایک طاہر اے خان کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ہے اور پی بی اے کے بنانے میں ان کا بہت کردار ہے اس لئے استثنا دیا ہے، باقی کسی چینل مالک کو ایجنسی بنانے کی اجازت ہے اور نہ ان کو پی بی اے کی رکنیت دی جاتی ہے ۔ طاہر اے خان نے نجی چینلز کے ابتدائی دور میں لائسنس لیا تھا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اوپن کر دیتے ہیں جس کی مرضی جس چینل کو اشتہار دے ۔ میاں عامر نے کہا کہ پی بی اے بالکل میرٹ کے مطابق کام کرتی ہے، ہم سے صرف ایک غلطی ضرور ہوئی ہے کہ صرف ہمارے ممبرز ہی ریٹنگ میں آ سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہی بنیادی غلطی ہے ۔ میاں عامر نے کہا کہ اس کو درست کر لیں گے ۔ ریٹنگ اس لئے ضروری ہے کہ اس سے ہمارے اشتہار کا نرخ طے ہوتا ہے، ایڈ ایجنسیوں سے 90 دن میں اشتہار کی رقم کلیئر ہوتی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹنگ جاری کرنا پھر نجی کمپنی کے پاس واقعی نہیں ہونا چاہئے، سارے چینلز کی آپس میں مسابقت ہے تو پھر کس طرح ریٹنگ پر منصفانہ فیصلہ کر سکتے ہیں، چند بڑے میڈیا ہاؤسز نے اپنا کارٹل بنایا ہوا ہے، اس کیلئے غیر جانبدار ادارہ کیوں نہ ہو ۔ میاں عامر نے کہا کہ اگر حکومت اس کام میں آئے گی تو مسائل ہوں گے کیونکہ اس میں بہت بڑا پیسہ زیر گردش ہوتا ہے ۔ ہم میڈیا مالکان ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں، پی بی اے کے معاملات عدالت اپنے پاس رکھ لے حکومت کے پاس نہ جانے دے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ملی بھگت اسی طرح ہوتی ہے، لاہور راوی پل کا ٹھیکہ ساری زندگی ایک ہی پٹھان کے پاس رہا کیونکہ سارے ٹھیکیدار مل کر اس پٹھان کو پیسے پکڑا دیتے تھے اور وہ ٹینڈر بھر دیتا تھا ۔ دنیا ٹی وی کے مالک میاں عامر نے کہا کہ سر میں لاہوریا ہوں، مجھے پتہ ہے ۔

بول نیوز کے ڈائریکٹر سمیع ابراہیم نے کہا کہ میڈیا لاجک کے سی ای او سلمان دانش نے مجھے کہا کہ پی بی اے سے معاملات طے کر لیں، اگر سپریم کورٹ ہدایت بھی دے تب بھی آپ کو زیرو ریٹنگ ملے گی ۔ سمیع نے کہا کہ کارٹلائزیشن کو تحفظ دیا جا رہا ہے ۔ میڈیا لاجک کے وکیل نے کہا کہ یہ بالکل غلط تاثر دیا جا رہا ہے ۔ ہم نیوز کے مالک درید قریشی نے کہا کہ میرٹ پر میڈیا لاجک کو ریٹنگ جاری کرنے کا کام دیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے رعونت سے الرجی ہے، اور یہ (میڈیا لاجک) والے سفارشیں بھی کرواتے ہیں، ان کا فرانزک آڈٹ کرواتا ہوں، معلوم کرتے ہیں کس کو کتنا بزنس دیا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ پیمرا کی سفارشات پر پی بی اے اپنا تحریری ردعمل دے جبکہ مسابقتی کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے