کالم

سر پلیز، غلط سوچ کا دفاع مت کریں

ستمبر 5, 2018 4 min

سر پلیز، غلط سوچ کا دفاع مت کریں

Reading Time: 4 minutes

محمد اشفاق

رات کو اپنا مضمون "کنفیوزڈ نسلیں” مکمل کر کے سویا تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کنفیوژن کی شاہکار مثال اپنے استاد محترم سے پڑھنے کو ملے گی ۔

مضمون کے آغاز میں جیسا کہ ہمارے ہاں خاموش روایت ہے کہ قادیانیوں کے ذکر سے پہلے ہر کوئی اپنا عقیدہ بیان کرنا واجب سمجھتا ہے، عامر بھائی (کالم نویس عامر خاکوانی) نے بھی اپنا عقیدہ واضح کیا جس پہ قطعی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض تب ہوتا ہے جب آپ اس ذاتی عقیدے کو ریاست کے سر منڈنا چاہتے ہیں۔

آگے چل کر عامر بھائی نے فرمایا کہ آئین دیگر اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی وہ تمام حقوق دیتا ہے جو پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ مگر قادیانیوں کا معاملہ دیگر اقلیتوں سے ذرا مختلف ہے۔ آپ بتاتے ہیں کہ "جب کبھی قادیانیوں میں سے کوئی شخص کسی اہم عہدے پر فائز ہو تو عوام خاص کر مذہبی حلقوں میں بے چینی اور اضطراب پھیل جاتا ہے-” آگے چل کر آپ اس بے چینی اور اضطراب کی وجوہات بیان فرماتے ہیں۔

عامر بھائی کے مطابق "قادیانیوں کے حوالے سے مسلمانوں میں ایک خاص قسم کی ناپسندیدگی موجود ہے” جو کہ بالکل موجود ہے، یہ ناپسندیدگی عرف عام میں تعصب یا نفرت کہلاتی ہے- یہ کسی بھی ایک کمیونٹی کو کسی دوسری کمیونٹی سے سیاسی، سماجی، معاشی یا مذہبی وجوہات کی بناء پر ہو سکتی ہے۔ مثلاً بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں پنجابی آباد کاروں کیلئے ایک خاص قسم کی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے- پورے ملک میں بالعموم افغان مہاجرین کیلئے ایک خاص قسم کی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ ریاست اسی لئے ایک آئین تشکیل دیتی اور اس پہ عملدرامد یقینی بناتی ہے کہ یہ خاص قسم کی ناپسندیدگی متاثرہ کمیونٹی کے حقوق سلب کرنے کا باعث نہ بنے۔ اس ناپسندیدگی، اس مخاصمت کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ آپ اسی کا حوالہ دے کر قادیانیوں کے حقوق سلب کرنا چاہتے ہیں۔

عامر بھائی کے خیال میں قادیانی تدبر سے کام لیتے، ہم نے انہیں کافر ٹھہرایا تو وہ بھی خود کو کافر مان لیتے اور شاہکار جملہ کہ "ازخود مسلمان آبادی کے ساتھ ایک غیرمسلم کا سا تعلق قائم کرتے” (اس کی تشریح استاد محترم سے ملاقات پر ہی پوچھوں گا) تو بھی شاید حالات بہتر ہوتے۔ مثال آپ نے تقسیم کے وقت اور تقسیم کے بعد کے سکھوں کی بیان فرمائی۔ ہندوستان میں رہ جانے والے سکھوں کے رویے کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا اور یہاں بچ جانے والے سکھوں نے بھلا کیا قتل و غارت کرنا تھی، سمجھنے سے قاصر ہوں۔

آپ فرماتے ہیں کہ "درحقیقت انہوں (قادیانیوں) نے اپنے تلخیوں اور نفرت میں گندھے ردعمل ہی کو اپنی ذات کا جزو بنا لیا ہے-” یہاں آپ صرف "انہوں” کی جگہ”ہم” لگا دیں تو یہ جملہ اس ذہنی کیفیت کا عکاس ہے جس میں یہ مضمون لکھا گیا ہے۔

عامر بھائی کو دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ قادیانی سب کے سب اپنی جماعت اور امیر کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی وفاداری اپنی جماعت اور امیر کے ساتھ ہوتی ہے- مزے کی بات یہ ہے کہ اسی کا نام خلافت ہے جسے اسلام پسند ہمارے سروں پر بھی مسلط کرنا چاہتے تھے۔ یہ قادیانیوں نے نافذ کر رکھی ہے اس لئے اب عامر بھائی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے کسی ملک میں بھی ہوں ان کی ریاست سے وفاداری مشکوک ہی قرار پائے گی۔ ویسے آج تک اس بناء پر یورپ کے کسی ملک نے کسی قادیانی کی وفاداری پہ شک نہیں کیا، ہمیں یہ نکتہ وہاں کے حکمرانوں کے کانوں میں بھی انڈیلنا پڑے گا۔ لیکن یہ اس قدر خطرناک اور خوفناک نکتہ ہے کہ مجھے عامر بھائی سے کم از کم اس سوچ کی توقع نہیں تھی۔ بتاتا ہوں کیوں؟

آغا خانی اور بوہریوں کو ابھی ہم باقاعدہ دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں کامیاب تو نہیں ہو سکے، تاہم آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ بھی کوئی "صحیح طرح” کے مسلمان نہیں ہیں۔ اتفاق سے مرکزی جماعت اور امیر کے ساتھ وفاداری کا تصور ان دونوں فرقوں کے ہاں قادیانیوں سے بھی زیادہ قدیم اور گہرا ہے- آج ریاست عامر بھائی کے اس مفروضے پر ایمان لے آئی اور قادیانیوں کی ریاست سے وفاداری مشکوک قرار دے دی گئی تو کل اسی مفروضے کے تحت آپ دیکھئے گا یہی عامر بھائی اینڈ ہمنوا اسماعیلیوں اور بوہریوں کے خلاف مہم چلا رہے ہوں گے ۔ ویسے سچ پوچھیں تو یہ اثنا عشری شیعہ بھی ہم سے زیادہ ایران کے وفادار نہیں؟ کیا خیال ہے ان کا مکو بھی ساتھ ہی ٹھپ دیا جائے؟ ۔

استاد محترم! فاشزم کا بیج بونا بہت ہی آسان ہے، مگر اس سے پھوٹنے والی جڑیں کہاں کہاں تک پھیلیں گی، اس کے زہریلے پتے کہاں کہاں گریں گے اور اس کا پھل کھا کر کتنے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، یہ اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا، بیج بونے والا بھی نہیں۔ خدا کیلئے پاکستان پر رحم کریں ۔

اگر موجودہ ائین کے اندر موجود اینٹی قادیانی لاز سے آپ مطمئن نہیں ہیں تو آپ کی اپنی حکومت ہے، مہم چلائیں، ترمیم لائیں اور اپنی مرضی کا قانون بنوا لیں۔ یہ جو "کسی غیررسمی انڈرسٹینڈنگ” کی تجویز آپ پیش فرما رہے، اس کا دروازہ ایک بار کھل گیا تو قرون اولیٰ کا وہ دور واپس آ جائے گا جس میں صرف قریش ہی منصب کے اہل ہوا کرتے تھے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کس طرح طے کیا جائے کہ کس محکمے میں قادیانی زیادہ سے زیادہ کس منصب تک پہنچ سکتے ہیں۔ فوج، سول سروس اور عوامی عہدوں کی مثالیں دے کر واضح کریں، آپ انہیں کہاں پر دیکھنا برداشت کر پائیں گے؟

عمران خان نے کچھ بھی غلط نہیں کیا عاطف میاں کا تقرر کر کے ۔ عاطف میاں کی حب الوطنی یا ایمانداری پر شک بلاجواز ہے اور ویسے بھی آپ جیسے مومنین جہاں پائے جاتے ہوں وہاں ان کی اتنی اوقات یا ہمت نہیں ہو سکتی کہ ملک کے مفادات کے خلاف جائیں۔ اس تقرر کے نہ ہونے سے بالکل فرق نہ پڑتا مگر تقرری کر کے اب واپس لینا اس منقسم معاشرے کی مزید تقسیم کا باعث بنے گا۔ رحم، خدارا رحم ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے