پاکستان24 متفرق خبریں

ایک ہزار بلین کی جائیدادیں ہیں، چیف جسٹس

ستمبر 19, 2018 3 min

ایک ہزار بلین کی جائیدادیں ہیں، چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں پاکستانیوں کی بیرون ملک اثاثوں کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ہے ۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کی استدعا پر 15 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر حوالہ، ہنڈی سے رقم کی منتقلی روکنے، بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے کی پیشرفت رپورٹ دی جائے ۔ عدالت نے ایف آئی اے کو بیرونی ممالک میں چھپائی گئی پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تصدیق اور پوچھ گچھ کیلئے مہلت دے دی ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے اٹارنی جنرل کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ اسمگلنگ کیوں نہیں روکی جارہی؟آپ کی آنکھوں کے سامنے اسمگلنگ کا سامان فروخت ہورہا ہے، باڑہ مارکیٹ میں سمگلنگ کا مال فروخت ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور کی نیلا گنبد مارکیٹ میں پاکستانی سائیکل نہیں ملتی ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے قانون سازی زیر غور ہے، پاکستان میں لائے گئے سامان پر پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمگلنگ کی تعریف میں تبدیلی کیلئے قانون سازی زیر غور ہے، پاکستانی رقوم کی واپسی کیلئے اقدامات کررہے ہیں ۔

پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا، کیا آپ کے سب ٹھیک کہہ دینے سے کیا ہم مقدمہ ختم کردیں، ہمیں عملی اقدامات چاہئیں ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منی لانڈرنگ روکنے کیلئے مشترکہ آپریشن پر کام ہورہا ہے، لوٹی گئی پاکستانی دولت واپسی کیلئے برطانیہ کیساتھ معاہدہ ہوچکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک شخص پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ گیا، برطانیہ کے وزیر داخلہ نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے، برطانیہ میں گرفتار شخص نے 250 ملین ڈالر براستہ دبئی برطانیہ منتقل کیے، برطانیہ سے معاہدہ اگے بڑھنے میں مدد دے گا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ سے جو معاہدہ ہوا اس میں کئی مشکلات بھی ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم برطانیہ اور پاکستان کے درمیان معاہدے کی کاپی پیش کردیں گے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت نے حوالہ، ہنڈی کے ذریعے پیسے کی منتقلی روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پولیس نے راولپنڈی اور پشاور میں ہنڈی والوں کے خلاف کارروائی کی، 44 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 119 ملین روپے کی رقم برآمد کی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق کراچی، لاہور، فیصل آباد میں ہنڈی والوں کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے، ہنڈی حوالہ کی روک تھام کیلئے قانون میں مزید ترمیم کررہے ہیں، تمام شہروں میں ہنڈی والوں کے خلاف کارروائی چل رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کا پیسہ ہنڈی کے ذریعے باہر نہیں جانا چاہیئے۔

سٹیٹ بنک کے گورنر طارق باجوہ نے بتایا کہ بیرونی ممالک میں جائیدادیں رکھنے والوں کیخلاف پہلی مرتبہ قانون سازی ہورہی ہے، ایف آئی اے کو قانونی طور پر بیرون ملک رابطے کا اختیار دیا گیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقدامات صرف کاغذوں کی حد تک ہیں، جسٹس اعجاز الااحسن نے گورنر اسٹیٹ بنک سے پوچھا کہ عملی طور کچھ نہیں ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیرونی ممالک میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کے بارے میں ہم کیوں نہیں پوچھ سکتے، کتنے پاکستانی ہیں جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں؟

سٹیٹ بنک کے گورنر نے بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس 550 لوگوں کے نام ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور پاکستان رہتے ہیں انہیں بلاکر پوچھا کیوں نہیں جاتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل مقصد بیرون ملک سے رقوم کی واپسی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ سو پچاس پاکستانیوں کو بلا لیں اتنی جگہ تو سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ایک ڈالر کی رقم بھی باہر سے واپس آئی؟ ساری کارکردگی کاغذوں میں ہے ۔

سٹیٹ بنک کے گورنر نے کہا کہ عدالت تھوڑا تحمل کرے تو انشا اللہ کاکردگی دکھائیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو 550 لوگ ہیں ان میں سے 15، 20 لوگوں کو عدالت بلالیتے ہیں، زبردستی کسی کے ساتھ نہیں کریں گے۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق دبئی اور برطانیہ میں پاکستانیوں کی ایک ہزار بلین کی جائیدادیں ہیں، تمام لوگوں کے ساتھ ملکی قوانین کے تحت سلوک کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے حکم سے کوئی خوف پھیلنے کا خدشہ ہے تو حکومت خود کارروائی کرے، ہم تو رضاکارانہ یہ کام کررہے ہیں ۔ ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ پاکستانیوں کی بیرون ملک 2700 جائیدادیں ہیں،کچھ پاکستانیوں کی تو پانچ پانچ چھ چھ جائیدادیں ہیں، ڈی ایف آئی اے نے بتایا کہ بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والوں سے پہلے بیان حلفی لیں گے، بیان حلفی کے بعد اگے کارروائی کریں گے، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے درخواست کی کہ عدالت پیشرفت کیلئے ایک ماہ کا وقت دے ۔  چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں لوٹی گئی پاکستانی دولت کی واپسی کیلئے دلیرانہ طریقے سے حل نکالنا چاہئیے ۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کی استدعا پر 15 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر حوالہ، ہنڈی سے رقم کی منتقلی روکنے، بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے کی پیشرفت رپورٹ دی جائے ۔ عدالت نے ایف آئی اے کو بیرونی ممالک میں چھپائی گئی پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تصدیق اور پوچھ گچھ کیلئے مہلت دے دی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے