کالم

دورہ افغانستان اور خطے کا امن

ستمبر 21, 2018 4 min

دورہ افغانستان اور خطے کا امن

Reading Time: 4 minutes

ارشدعلی خان

پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں جن میں اُتار چڑھاو آتا رہتا ہے(افغانستان اپنے ہاں کی بدامنی کاذمہ دار آج بھی پاکستان کو سمجھتا ہے ۔آج بھی اس کا دعوی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے پار اٹک تک کا علاقہ افغانستان کا ہے جس میں پورا خیبرپختونخوا آتا ہے اسی طرح پاکستان کے بھی ایسے ہی کچھ تحفظا ت ہیں مگر دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بداعتمادی سے بین الاقوامی طاقتیں فائدہ اُٹھا رہی ہیں) تاہم مشہور کہاوت ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے۔ اگر پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے تو پھر ان کے ساتھ امن و امان اور دوستی رکھ کر ہی آپ ترقی کی منازل طے کرسکتے ہیں اور یہی بات دونوں ممالک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جب تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی ختم نہیں ہوجاتی تب تک کچھ بھی کرلیں دونوں ملکوں میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی ،اسلامی اور ثقافتی تعلقات ہیں جبکہ مشترک زبان بھی ایک دوسرے کو جوڑنے کا ایک ذریعہ ہے(سرحد کے دونوں جانب پشتو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے)۔
اگر پاکستان اور افغانستان اپنے درمیان موجود بداعتمادی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ایسے بہت سے منصوبے اور مضوعات ہیں جو ان دونوں پڑوسیوں کو مزید نزدیک کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جن میں دونوں ممالک کے درمیان آزادنہ تجارت،پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی افغانستان تک وسعت اور افغانستان کاوسطی ایشیائی ممالک کے لئے بطور گیٹ وے استعمال، تاپی اور کاسا جیسے منصوبوں پر عمل درآمد،پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاحت کا فروغ اور یہاں تک کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پانیوں سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں مگر شرط وہی ایک ہے کہ درمیان میں موجود بداعتمادی کو ختم کیا جائے ۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد رپڑوسیوں سے بہتر تعلقات کے حوالے سے بھی ایک نئی سوچ اور عمل کا آغاز کیا گیا ہے ۔(وزیراعظم عمران خان اپنے وکٹری سپیچ میں پڑوسی ممالک سے تعلقا ت کی اہمیت پر بات کی اور یہاں تک کہا کہ وہ چاہتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان یورپی یونین کی طرز پر تعلقات ہوں اور ایک دوسرے کے لئے بارڈر بھی یورپی یونین کی طرز پر کھلے رہیں)اور اسی احساس کو لے کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منصب سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ افغانستان کا کیا ۔کابل پہنچنے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے وفد کا استقبال نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور افغان وزارت خارجہ کے اعلی حکام نے کیا ۔ائیرپورٹ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغان صدارتی محل ارگ پہنچے جہاں ان کا استقبال ہم منصب صلاح الدین ربانی نے کیا ۔ سب سے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی جو 45منٹ جاری رہی۔دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے جس میں پاکستانی وفد کی سربراہی شاہ محمود قریشی اور افغان وفد کی قیادت صلاح الدین ربانی نے کی۔وفود کی سطح پر مذاکرات کے لئے بھی 45منٹ مختص تھے تاہم یہ مذاکرات ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہے جس میں دونوں ممالک کے باہمی مسائل سمیت دیگر اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
دورہ افغانستان کے حوالے سے جاری کئے گئے اعلامیے کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ہم منصب صلاح الدین ربانی سے ملاقات کی۔اس دوران پاک جوائنٹ اکنا مک کمیٹی اور پاکستان افغانستان ایکشن پلان پر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ،دونوں ممالک نے جلال میں پاکستانی قونصل خانے کے سیکیورٹی معاملات جلد از جلد حل کرنے اور قونصل خانے کو دوبارہ فعال کرنے پر بھی اتفاق کیا۔اسی طرح وزیر خارجہ نے افغان پولیس اہلکاروں کو پاکستان میں ٹریننگ دینے کی بھی پیشکش کی۔مذاکرات کے دوران افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی پر بھی بات چیت کی گئی (موجود ہ وقت بھی 30سے40 لاکھ رجسٹر ڈ و غیر رجسٹرافغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جو پہلے سے دبی ہوئی پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں تاہم پاکستان نے خوشدلی کے ساتھ افغان مہاجرین کو چھت مہیا کی ہے)۔دورے کے دوران شاہ محمود قریشی نے افغان حکام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے اور اس حوالے سے افغان سیاسی قیادت کے زیر قیادت سیاسی عمل کی حمایت کرنے اور اس حوالے سے ہرقسم کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان نے افغانستان سے امپورٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا تاہم اس کا فائدہ تب ہوگا جب افغانستان بھی پاکستانی تاجروں پر عائد کردہ ناروا ٹیکسوں میں کمی کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ ہو۔افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتر ی کے لئے پاکستان نے ایک اور قدم بھی اٹھا یا ہے اور 40ہزار ٹن گندم افغانستان کے قحط زدہ علاقوں میں بطور امداد بھجوائی گئی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے منصب سنبھالنے کے بعد پہلے دورے پر افغانستان جانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو لے کر کتنا سنجید ہ ہے۔دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا تب ہی پروان چڑھے گی جب افغانستان بھی پاکستانی اقدامات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھے گا اور پاکستان کے اقدامات کا جواب مثبت انداز میں دے گا۔(اس سے قبل جب بھی پاکستان نے افغانستان کو قریب کرنے کی کوشش کی تو افغان صدر اور دیگر اعلی حکام کی جانب پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوا )
افغانستان کے علاوہ پاکستان اپنے دیگر پڑوسیوں یعنی بھارت اور ایران سے بھی بہتر تعلقات کا خواہاں ہیں (چین کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں تاہم سی پیک کے حوالے سے اس خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہونے کے بعد ہمیں چین کے ساتھ بھی نہایت احتیاط سے ڈیلنگ کرنی ہوگی)۔جب تک اس خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوجاتا تب تک خطے میں موجود کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے