پاکستان24 متفرق خبریں

سپریم کورٹ: لاپتہ کے لواحقین کی دہائی

ستمبر 26, 2018 3 min

سپریم کورٹ: لاپتہ کے لواحقین کی دہائی

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں چار ماہ بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی مٰں تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی تو درخواست گزارآمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ لاپتہ افرادکی بازیابی کیلئے قائم کمیشن میں ایجنسیوں کے نمائندوں کا طلب کیا جانااچھی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن کو بھی ایجنسیوں سے شکایات تھیں، میں نے اعلی سطح کا اجلاس بلایا، کمیشن میں مقدمات کی باری ایک سال بعد آتی ہے، ہم لاپتہ افراد کمیشن کی نگرانی کر رہے ہیں، کمیشن میں آئندہ برگیڈیئر لیول کے آفیسر پیش ہونگے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ لاپتہ افراد کے کیسز پانچ ہزار سے بڑھ گئے ہیں،جبری لاپتہ کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن کمیشن جبری گمشدگی روکنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ آپریشن راہ راست میں بہت سے افراد لاپتہ ہوئے، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ لاپتہ افراد کمیشن عدالت کو اپنی پیش رفت رپورٹ دے گا، شواہد ریکارڈ کرنا کمیشن کا کام ہے مسعود جنجوعہ کے بارے میں دعا کر سکتے ہیں وہ زندہ ہوں،

آپ کا خیال ہے وہ زندہ ہیں لیکن شواہد یہ بتا رہے ہیں مسعود جنجوعہ دنیا میں نہیں ہیں ،لاپتہ افراد کی دادرسی کے لیے موثر طریقہ کمیشن ہی ہے کمیشن کو شکایت تھی کہ ایجنسیاں تعاون نہیں کرتیں اس لئے تمام حساس اداروں کے افسران کو بلا کر واضح پیغام دیا گیا۔ امید ہے کہ چیزیں بہتر انداز میں آگے بڑھیں گی۔ ہر ماہ کیسز مقرر کر کے کمیشن سے رپورٹ لیں گے، آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے سوات سے لاپتہ ہونے والوں کے معاملہ پر کاروائی روک دی ہے۔اس دوران ایک والدہ نے پیش ہوکر کہاکہ 9 سال سے میرا بچہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔ کیا کوئی والدین 9 دن اپنے بچے کے بغیر رہ سکتے ہیں میری ممتا کو کیوں تڑپا رہے ہیں۔کوئی جرم کیا ہے تو سزا دیں لاپتہ کیوں کیا؟چیف جسٹس نے خاتون کو تسلی دیتے ہوئے کہاکہ اگر علم ہو آپ کا بچہ کہا ںہے توخود جاکر بازیاب کروادوں۔ ملکی ایجنسیوں کو بدنام کرنے کیلئے بھی لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ تاہم جن کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے انکا ازالہ کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔لاپتہ افراد کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس بلایا جاتا ہے۔لاپتہ افراد کمیشن نے بہت اچھی پراگرس دکھا کر کئی لوگوں کو بازیاب کرایا۔ اس دوران خاتون نے کہاکہ اللہ کے بعد آپ کی عدالت ہے، عدالت میں لاپتہ شہری مدثر اقبال کی والدہ زاروقطار روپڑی اور کہاکہ میں فالج کی مریضہ ہوں لاہور سے آتی ہوں، میرا بیٹا سبزی لینے گیا تھا ایجنسی والے اٹھا کر لے گئے، اس دوران آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ کمیشن نے مدثر اقبال کو پیش کرنے کا 3 مرتبہ حکم دیا،کمیشن کے حکم کے باوجود ایجنسیوں نے مدثر اقبال کو پیش نہیں کیا،

چیف جسٹس نے کہاکہ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد کمیشن کے حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی؟اس دوران وزارت دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز نے بتایاکہ مدثر اقبال ایجنسیوں کی تحویل میں نہیں ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نمائندہ کمیشن مدثر اقبال کے بارے بتائیں، کمیشن نے نمائندے نے بتایا کہ وہ مدثر اقبال کی رپورٹ لیکر نہیں آیا، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ اگر مدثر اقبال کے بارے رپورٹ نہیں لائے تو کس لئے عدالت آئے ہیں، کمیشن نے اطمینان ہونے کے بعد پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا حالات واقعات کومدنظر نہ رکھیں، اور ایجنسیوں کی بات کو من و عن تسلیم کر لیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مدثر اقبال کسی ایجنسی کی تحویل میں نہیں،۔

اس دوران طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہاکہ لواحقین پردبا ئوڈالا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ سے مقدمہ واپس لیں بندہ واپس آجائے گا، اس وقت سی ٹی ڈی پولیس لوگوں کو اٹھا رہی ہے،  چیف جسٹس نے کہاکہ لاپتہ افراد کے معاملے کے لئے الگ بینچ بنانے کا سوچ رہا ہوں، لاپتہ افراد کے لواحقین دکھ میں ہیں،عدالت نے قرادیا کہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ کمیشن میں برگیڈیئر لیول کا افسر پیش ہو گا۔متاثرین متفق ہے کہ لاپتہ افراد کے لیے موثر فورم کمیشن ہے لیکن متاثرین کا موقف ہے کہ کمیشن کے کام کی نگرانی عدالت عظمی کرے۔

عدالت نے لاپتہ  افراد کمیشن کی طرف سے مدثر اقبال کو پیش کرنے کا حکم نامہ طلب کرتے ہوئے کہاکہ مدثر اقبال کا پروٹیکشن آرڈر آج ہی پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی لوگ جہاد اور بہکاوے میں آکر چلے گئے ، میری سالگرہ پر میرے بیٹے نجم نے مجھے حضرت علی کی کتاب دی حضرت علی کے فیصلوں کی کتاب میرے لیئے قیمتی تحفہ ہے۔ حضرت علی کے فیصلے پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ چیف جسٹس  نے کہاکہ انصاف کرنے کی نیت سے بیٹھے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے کیسز کے لیے دو رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیدیافاضل بینچ جسٹس منظوراحمد ملک اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل ہوگا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے