کالم

کیا کوئی سازش ہے

اکتوبر 6, 2018 4 min

کیا کوئی سازش ہے

Reading Time: 4 minutes

اظہر سید

پاک فوج کی طاقت کا مرکز ہمیشہ سے پنجاب رہا ہے لیکن پنجاب کی مقبول سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے ۔ ہم نے ہمیشہ یقین کیا، پاک فوج میں عوامی ردعمل کو جانچنے کا ایک منظم طریق کار موجود ہے ۔ عام انتخابات کے دوران اس کے بعد اور میاں نواز شریف کے خلاف عدالتی کاروائی اور سزا کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں میں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف عوامی سطح پر جذبات پیدا ہوئے ۔ سوشل میڈیا پر متعدد ایسی ویڈیو موجود ہیں جہاں عام لوگ مختلف مواقعوں پر ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں ۔ فوج میں طریق کار موجود ہے عوامی رائے سے آگاہی حاصل کرنے کے ذرائع بھی میسر ہیں ۔ حیران ہیں کیسے اس طرح کے فیصلے اور اقدامات ہو رہے ہیں جن سے پنجاب میں مخالفانہ جذبات پیدا ہو رہے ہیں اور انتقامی کاروائی کا تاثر پیدا ہو رہا ہے ۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ملکی سلامتی کیلئے خطرناک ہے ۔
بھارت روسیوں سے دفاعی نظام ایس یو 400 حاصل کر رہا ہے ۔ یہ ڈیل طویل عرصے سے فیصلے کی منتظر تھی ۔ امریکیوں اور مغربی دنیا سے دفاعی سودوں کی وجہ سے بھارتی اس سودے کو مسلسل التوا میں ڈال رہے تھے ۔ بھارتی اسلحہ مارکیٹ ہاتھ سے نکلنے کے بعد روسی پاکستان کے قریب آنے لگے تھے ۔پاکستان کو ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے علاوہ دیگر جدید اسلحہ بھی ملنا شروع ہو گیا تھا ۔ روسیوں نے پاکستانی فوج کو دفاعی تربیت کیلئے تعاون کی پیشکش بھی کر دی تھی اور چین کے ساتھ مل کر افغانستان میں پاکستان کو ریلیف فراہم کرنے کا عمل بھی شروع کر رکھا تھا ۔ بھارتی وزیر اعظم ،وزیر دفاع اور آرمی چیف کی طرف سے پاکستان کو سنجیدہ دھمکیوں کے بعدبھارتیوں نے روسیوں کے ساتھ تجدید تعلقات کا عمل شروع کیا ہے جسکی پہلی جھلک بھارت روس دفاعی تعلقات کی بحالی کیلئے روسی صدر کا دورہ بھارت اور متعدد دفاعی سمجھوتوں پر دستخط ہیں ۔
پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ سی پیک کے معاملہ پر چینیوں کو ناراض کر لیا ہے ۔یمن کے معاملہ پر اقوام متحدہ کی قرارداد میں غیر حاضر رہنے کی بجائے سعودیوں کے حق میں ووٹ دے کر ایران کے سامنے اپنی غیر جانبداری کا پردہ چاک کر دیا ہے ۔ملکی معیشت کے استحکام کے نام پر عوامی رائے عامہ کو ریاستی اداروں کے خلاف کر لیا ہے اور اب شہباز شریف کی گرفتاری سے افراتفری اور سیاسی بے یقینی کی آگ پر گویا تیل چھڑک دیا ہے۔
آشیانہ ہاوسنگ اسکیم میں کرپشن کے نام پر جو گرفتاری کی گئی ہے اسے بھلے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی سے روکنے کی کوشش قرار دیں ، نا اہل ثابت ہونے والی حکومت کے خلاف ملک بھر میں پیدا ہونے والے عوامی جذبات کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش یا پھر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کو کامیابی سے روکنے کا عمل کہا جائے لیکن اس گرفتاری سے ، پہلے سے مضطرب چینیوں کو بہت غلط پیغام گیا ہے ۔چینی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر شہباز شریف کی تعریف کی گئی تھی ۔سی پیک منصوبوں پر تیز رفتار عملدرآمد کی وجہ سے سابق وزیر اعلی پنجاب کو "پنجاب سپیڈ” کا تمغہ دیا گیا تھا ۔دونوں بھائی سابق وزیر اعظم اور وزیر اعلی سی پیک منصوبوں پر جنگی رفتار عملدرآمد کروا رہے تھے اور ان دونوں کے ساتھ عام انتخابات کے دوران پہلے اور بعد میں جو سلوک کیا گیا چینی اس سے ہر گز خوش نہیں ۔چینیوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار اپنے انداز میں متعدد بار کیا ہے ۔برکس کانفرنس میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا ،پاکستان کو فنانشل ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ڈالنے کی اجازت دی اور گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس ملتوی کروائی ۔
بھارتی موقع کے منتظر ہیں انہیں موقع دیا جا رہا ہے ۔ بلوچستان میں چینیوں کی مدد سے عسکریت پسندی پر قابو پا لیا گیا تھا لیکن عوامی سطح پر جذبات موجود ہیں ۔قبائلی علاقہ جات میں منظور پشین کی عوامی حمایت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب پنجاب جو پاک فوج کی طاقت کا مرکز ہے وہاں ریاستی اداروں کے خلاف جذبات پیدا ہو رہے ہیں ۔
حب الوطنی کا سارا بوجھ سیاسی قیادت پر نہ ڈالا جائے خود بھی ایسے اقدامات کئے جائیں عوامی رائے عامہ پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہو جائے ۔بھارتی صرف لائیں آف کنٹرول پر جارحانہ تیاریوں میں اضافہ نہیں کر رہے بین الا قوامی سرحدوں پر بھی تیاریاں کر رہے ہیں ۔پاکستان میں ایک ایسی حکومت مسلط کر دی گئی ہے جو فوج کی عزت میں اضافہ کی بجائے ایک بوجھ بن چکی ہے۔ ان لوگوں کے پا س 100 ماہرین معیشت تو کیا ایک بھی موجود نہیں ۔ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کر کے یا شرح سود میں اضافہ سے معیشت مستحکم نہیں ہوتی بلکہ کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں ، ملک میں امن و امان اور قومی یکجہتی اور بین الا قوامی حمایت سے معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے ٹیکسوں میں اضافہ اور سرمایہ کاروں کو بھگا کر نہیں ۔ امریکی ناراض ہیں ، چینی مضطرب ہیں ،بھارتی موقع سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں، ایرانیوں کو مہارت سے دور کر دیا ہے اور سعودی ہاتھ پکڑنے کا موقع نہیں دے رہے۔افغان حکومت بھارتیوں اور امریکیوں کی پراکسی ہے جبکہ بنگلادیش میں حسینہ واجد کا اقتدار ہے کیا خطہ میں سری لنکا اور اسلامی دنیا میں ترکی کی مدد سے درپیش چیلنجز سے نپٹا جائے گا ۔
ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے چیزوں کو سمیٹنے کی ضرورت ہے اور قومی یکجہتی کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔شہباز شریف کی گرفتاری اور نواز شریف کو سبق سکھانے کا عمل بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔تمام سیاسی قیادت پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام کو مخالف بنا لیا ہے صرف ایک نا اہل شخص کیلئے ۔یہ بہت گھاٹے کا سودہ ہے یہ سودہ جو غلطی سے خرید لیا ہے واپس کر دیں اسی میں ملک کی بھلائی ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے