پاکستان24 متفرق خبریں

چیف جسٹس اور ڈاکٹر ثمر مبارک میں مکالمہ

اکتوبر 11, 2018 2 min

چیف جسٹس اور ڈاکٹر ثمر مبارک میں مکالمہ

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے تھر میں زیر زمین کوئلے کی گیسی فیکیشن سے بجلی بنانے کے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے منصوبے پر سوال اٹھائے ہیں ۔ قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل اور عدالتی معاونین کو منصوبے کے مکمل ریکارڈ کا جائزہ لے کر رپورٹ دینے کیلئے کہا گیا ہے کہ کیا یہ منصوبہ قابل عمل تھا اور اس کی تحقیقات کس طرح کی جائیں ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تھر کول منصوبے ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے بتایا کہ تھر کول منصوبے کے دو درجے ہیں، ایک حصہ پبلک فنڈڈ ہے جبکہ دوسرا حصہ مقامی سرمایہ کاری سے مکمل ہونا ہے ۔ مقامی سرمایہ کاری سے چلنے والے چھ منصوبے ہیں جبکہ اس میں سے بھی چار سی پیک کا حصہ ہیں ۔ نیئر رضوی نے کہا کہ اینگرو پاور جنریشن سے 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اس پر 995 ملین ڈالر ہے، یہ جون ۲۰۱۹ میں مکمل ہوگا ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منصوبے سے کل 1320 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا تھی  مگر منصوبے سے تاحال پیداوار شروع نہ ہو سکی، اب تک اس منصوبے پر تین ارب چالیس کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں جبکہ صرف آٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکی ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس کی تحقیقات نیب سے کرا لیتے ہیں یا کمیشن بنا لیتے ہیں، یہ منصوبہ کس کا خیال تھا، کیا یہ قابل عمل تھا؟ کیسے شروع کیا گیا؟۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ منصوبے میرا تجویز کردہ نہ تھا، پلاننگ کمیشن کے لوگ بھی تھے، ابتدائی منصوبہ بندی پلاننگ کمیشن کرتا ہے ۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر سے کہا کہ آپ نے اس منصوبے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ جیسے پورے ملک میں بجلی آ جائے گی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ زیر زمین گیسی فیکیشن کی ٹیکنالوجی سے دنیا میں کہیں اور بھی بجلی بنائی گئی؟ ڈاکٹر ثمر مبارک نے جواب دیا کہ وسطی ایشیا کے کچھ ممالک میں استعمال ہوئی ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں کوئلے کی ساخت اور درجہ بہتر ہوگا، یہ مکمل فلاپ منصوبہ تھا، اس پر انرجی، فنانشل ماہرین اور سائنسدانوں کی معاونت سے تحقیق کرائیں گے ۔

ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ منصوبہ فلاپ نہیں تھا، آج بھی کام ہو سکتا ہے مگر فنڈنگ مکمل نہیں ہوئی، ساڑھے آٹھ ارب کے منصوبے پر ساڑھے تین ارب خرچ کرنے کے بعد فنڈنگ روک دی گئی، 2015 میں وفاقی حکومت نے مزید فنڈز نہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بحث نہ کریں، ہم اس پہلو کو بھی دیکھ لیں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی وجہ ہوگی جب حکومت نے مزید کام کرنے اور فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا، قوم کے پیسے کو اس طرح ضائع نہیں جانے دیں گے ۔ کسی نے کہہ دیا کہ میں سائنسدان ہوں اور اتنا بڑا کام کر سکتا ہوں تو اس کو منصوبہ دے دیا گیا ۔

عدالت نے منصوبے کا مکمل ریکارڈ پراسیکیوٹر جنرل نیب اور عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ سپریم کورٹ نے پراسیکیوٹر جنرل نیب اور معاونین سے تین دن میں رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا کہ بتایا جائے کیا بے ضابطگی ہوئی اور تحقیق کس سے کرائی جائے  ۔ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے